سعودی عرب کی شمال مغربی گورنری میں تیماء میں واقع 'بئرھداج' کو جزیرہ نما عرب کا سب سے قدیم ترین کنواں قرار دیا جاتا ہے۔ اس کنوئیں کے بارے میں متعدد روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ چھ سو قبل مسیح تیار کیا گیا۔ اس کے بارے میں کئی دوسرے قصے اور کہانیاں بھی مشہور ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایک رپورٹ میں انسانی تاریخ کے اس مشہور اور قدیم ترین کنوئیں کے بارے میں ایک رپورٹ میںروشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کنوئیں کا دھانا 65 میٹر اور گہرائی 11 سے 12 میٹر ہے۔ اس کے اندرونی اطراف میں پتھروں کی ایک دیوار بنائی گئی جب کہ باہر چاروں طرف کھجور کے گھنے اور لمبے لمبے درخت ہیں۔ زمانہ قدیم سے لوگ اس کنوئیں سے اپنی اور اپنے مویشیوں کی پیاس بجھاتے اور گھر کی دوسری ضرورت کے لیے پانی استعمال کرتے۔ بئر ھداج سے ایک ہی وقت میں ایک سو اونٹ پانی پی سکتے ہیں۔ اس کے اندر سے پانی 31 پتھر کی نالیوں سے نکالا جاتا ہے۔
سعودی پریس ایجنسی 'ایس پی اے' کے مطابق مرور زمانہ کے ساتھ بئر ھداج کئی حوادث زمانہ کا بھی شکار ہوا۔ اسے کئی بار مسمار کیا گیا اور پھر بنایا گیا۔ آج سے چار سو سال قبل بھی اسے دوبارہ اندر سے کھود کر اس میں سے مٹی نکالی گئی۔ سنہ 1373ھ تک تیما کے باشندے اس کنوئیں سے اپنے مویشیوں کو پانی پلاتے رہے۔
سعودی ریاست کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک بار اس کنوئیں کا وزٹ کیا۔ انہوں نے کنوئیں پر پانی نکالے والوںکا ھجوم دیکھ کر اس کی توسیع کا حکم دیا۔ چاروں طرف توسیع کے بعد اس میں پانی کا وافر ذخیرہ جمع ہو گیا جسے پینے کے ساتھ ساتھ قریبی علاقوں میں کھتی پاڑی کے بھی استعمال کیا جانے گا۔
آج 'بئرھداج' سعودی عرب ہی نہیں انسانی تاریخ کی ایک قدیم یادگار سمجھی جاتی ہے۔ اس کا ٹھنڈہ اور میٹھا پانی آج بھی جاری و ساری ہے۔ سعودی عرب اور دوسرے ممالک سے اس کنوئیں کی شہرت سن کر اسے دیکھنے والے ہزاروں سیاح ہرسال اس کی سیر کرتے ہیں۔
تبوک کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان بن عبدالعزیز نے بئرھداج کی دوبارہ مرمت کا حکم دیا ہے تاکہ اسے سیاحوں کے لیے پرکشش بنانے کےساتھ ساتھ مقامی لوگوں کے لیے فائدہ مند بنایا جاسکے۔