العربیہ ڈاٹ نیٹ شامی حکومت کی جانب سے بیرون ملک قائم کردہ فرضی کمپنیوں کے بارے میں اپنی تحقیق کا پہلا حصہ نشر کر چکی ہے۔ ان کمپنیوں کا مقصد منی لانڈرنگ اور مالی رقوم کی غیر قانونی منتقلی ہے۔ اس سلسلے میں تحقیق کے دوسرے حصے میں بشار الاسد کے ماموں محمد مخلوف کے گھرانے سے متعلق معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ بشار کے ماموں محمد مخلوف کے علاوہ رامی مخلوف (بشار کا ماموں زاد بھائی)، محمد رامی (رامی مخلوف کا بیٹا)، رزان عثمان (رامی کی اہلیہ) اور حافظ، ایہاب اور ایاد (محمد مخلوف کے بیٹوں) نے بھی کمپنیاں قائم کیں۔
محمد رامی مخلوف کی عمر 23 برس ہے۔ وہ MRM Holdings کا مالک، Future Builders کا شریک بانی اور Milk Man Dairy Products کا شریک مالک ہے۔ اگست 2019 میں انگریزی اخبار Deccan Chronicle نے بتایا تھا کہ محمد رامی مخلوف کی خالص دولت کا حجم 2 ارب ڈالر ہے۔ اس نے شام میں Wind Energy کے سب سے بڑے منصوبے میں سرمایہ کاری کی۔ تقریبا 30 ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے اس منصوبے کا بجٹ 15 کروڑ ڈالر ہے۔
گذشتہ برس اگست میں رامی مخلوف کے بیٹے نے تقریبا ایک ماہ یونان کے جزیرے اور فرانس میں تفریح کی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک یورپی ملک نے جس کا نام ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود محمد رامی مخلوف کو "شینگن" ویزا جاری کیا۔
دنیا میں بہت سی ایسی Law Firms ہیں جو سیاسی شخصیات کے لیے فرضی کمپنیوں کے قیام کی خاطر بدعنوانی کے نیٹ ورکس کی مدد کر سکتی ہیں۔
گذشتہ صدی میں 1970ء کی دہائی سے لاء فرم نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار وسیع کیا ہے۔ اس وقت فرم کے زیر انتظام 44 ممالک میں دفاتر کام کر رہے ہیں۔ ان میں الباہاما کے جزائر، قبرص، ہانگ کانگ، سوئٹزرلینڈ، برازیل، لیکزمبرگ، برطانوی جزیرہ ورجن اور امریکا کی ریاستیں وائمنگ، فلوریڈا اور نیواڈا شامل ہیں۔
یہ لاء فرمز مخصوص قانون دانوں کو استعمال کرتے ہوئے ایسے جزیروں میں کمپنیاں قائم کرتی ہیں جو چیک اینڈ کنٹرول اور ٹیکسوں سے محفوظ ہوں۔ پاناما میں "موساک وونسیکا" نامی قانون دان نے شامی حکومت کے بدعنوانی کے نظام کے واسطے کمپنیوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا۔ ایسی دستاویزات بھی سامنے آئی ہیں جو بشار کے ماموں زاد بھائی رامی مخلوف کے مذکورہ ایڈوکیٹ وونسیکا کے ساتھ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر مشتمل تعلق کو ظاہر کرتی ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے اقتصادی امور کے صحافی مصطفی السید نے بتایا کہ رامی مخلوف نے سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا میں کمپنیاں قائم کیں۔ اس کا مقصد کمپنیوں کا ایسا پیچیدہ نیٹ ورک قائم کرنا تھا جو متعدد ملکوں میں مثلا آسٹریا، انگلینڈ، ہالینڈ، لبنان اور روس میں رجسٹرڈ ہوں۔ ان میں بعض کمپنیاں ٹیکسوں سے پاک مقامات مثلا برطانوی جزیرے ورجن میں قائم ہیں۔
ادھر Global Witness تنظیم کے اندازے کے مطابق مخلوف خاندان نے دسمبر 2013ء سے جون 2019ء کے درمیان مختلف مراحل میں روسی دارالحکومت ماسکو میں بننے والی فلک بوس عمارتوں میں 4 کروڑ ڈالر کی جائیداد خریدی۔ اس تمام کارروائی کا مقصد منی لانڈرنگ تھا۔
ایک لبنانی کمپنی "نيلام سام آف شور" نے محمد مخلوف کے بیٹے حافظ مخلوف کی روسی کمپنیوں کو قرضے پیش کیے۔ گلوبل وِٹنس کے مطابق حافظ مخلوف اور نیلام کمپنی کے ڈائریکٹرز کے درمیان قریبی تعلق تھا۔ یہ ڈائریکٹرز ہیثم عباس اور حسن شریف ہیں۔ یہ دونوں افراد محمد عباس اور عمار شریف کے بھائی ہیں۔ عباس اور عمار دو اہم شامی تاجر ہیں۔ ان کو بشار حکومت کی سپورٹ میں نمایاں کردار ادا کرنے پر امریکا اور یورپی یونین نے عتاب کا نشانہ بنایا۔
علاوہ ازیں گلوبل وِٹنس نے بتایا ہے کہ عمار شریف ،،، رامی مخلوف کی بیوی رزان عثمان کی بہن کا شوہر ہے۔ اس طرح عمار شریف اور رامی مخلوف ایک دوسرے کے ہم زلف ہیں۔
جائیداد کی خریداری کے دو سال بعد یعنی 2018ء میں حافظ مخلوف نے روس میں رجسٹرڈ اپنی تین پراپرٹی کمپنیوں سے اپنا حصہ لبنانی کمپنی "بريانا آف شور" منتقل کرنے پر کام کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی حصص کے مالکان، ڈائریکٹرز اور پتے کے لحاظ سے مکمل طور پر "نيلام سام آف شور" کمپنی سے مماثلت رکھتی ہے۔
رامی مخلوف کی اہلیہ رزان عثمان نے دسمبر 2013ء میں ماسکو میں "کیپیٹلز سِٹی" ٹاورز میں ابتدائی آفس خریدا۔ واضح رہے کہ رزان کا نام 2012ء سے یورپی یونین کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ محمد مخلوف کے سب سے چھوٹے دو جڑواں بیٹوں ایہاب اور ایاد نے روس میں رجسٹرڈ ایک کمپنی کو فروری 2019ء میں ماسکو میں یونین ٹاور کے اندر نصف منزل خریدنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ جگہ 95 لاکھ ڈالر میں خریدی گئی۔ اسی طرح دنوں بھائیوں نے جون 2017ء میں اپنے دونوں کے نام سے ایک ہی جائیداد اور کیپیٹلز سِٹی ٹاورز میں کار پارکنگ کی دو جگہاؤں کو خریدا۔
برطانوی جزیرہ ورجن بشار حکومت کی اہم شخصیات اور ذمے داران کے واسطے فرضی کمپنیاں قائم کرنے کے حوالے سے موزوں ترین مقام شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کمپنیاں سادہ سے طریقہ کار کے ذریعے پورے برطانیہ میں رجسٹرڈ ہو جاتی ہیں۔ بشار الاسد حکومت کے ذمے دارن نے برطانیہ کے زیر انتظام جزیروں اور قدرتی مقامات کا رخ کیا جن میں ورجن جزیرہ نمایاں ترین ہے جہاں ٹیکس کی شرح سب سے کم ہے۔ مزید یہ کہ یہاں کمپنی کے حقیقی بانیوں کے ناموں پر پردہ رکھنے کی ضمانت ہوتی ہے۔
مخلوف خاندان کی پانچ کمپنیاں برطانوی جزیرے ورجن میں رجسٹرڈ ہیں۔ یہ کمپنیاں محمد مخلوف اور ان کے چار بیٹوں رامی، حافظ، ایاد اور ایہاب کے ناموں پر رجسٹرڈ ہیں۔ تاہم یہ لوگ اپنے لیے مجاز ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو ملازم رکھتے ہیں تا کہ حقیقی مالکان کی شناخت پوشیدہ رہے۔
بین الاقوامی قانون کے ماہر بسام طبلیہ نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ بہت سے شامی عہدے داران نے اپنے حقیقی ناموں سے یا پھر قابل بھروسہ ایجنٹس کے ذریعے کمپنیاں اور جائیدادیں خریدیں۔ یہ مقامات مالی رقوم کی غیر قانونی منتقلی اور منی لانڈرنگ کے لیے محفوظ جگہائیں شمار ہوتی ہیں۔
بسام کے مطابق ان کمپنیوں کو شمار میں لانا بہت مشکل ہے کیوں کہ یہاں نئی شخصیات کی مدد سے روزانہ نئی کمپنیوں کے قیام کا امکان باقی رہتا ہے۔ ان کے ذریعے منی لانڈرنگ یا املاک کی خریداری کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس معاملے کا انکشاف بڑی مقدار یا تعداد میں حساس مواد کے درآمد کیے جانے پر ہوتا ہے۔ ان میں رات کی نگرانی اور جاسوسی کے آلات اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خطرناک کیمیائی مواد وغیرہ شامل ہیں۔ اس موقع پر کمپنی یا پھر ان چیزوں کی خریداری کرنے والے ایجنٹ کا تعاقب کیا جاتا ہے۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق متعلقہ قانون بشار حکومت کو سپورٹ کرنے والے ممالک کے خلاف نافذ العمل نہیں ہوتا جس کے سبب اس قانون کا اثر محدود ہے۔
شامی اقتصادی ورکنگ گروپ کے سربراہ اسامہ قاضی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ لُوٹے جانے والے اثاثوں کی واپسی کے لیے 5 سے 10 برس کا عرصہ درکار ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ظاہر تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ واپس حاصل کی جانے والی رقم کُل حجم کا 10 فی صد سے زیادہ نہیں ہوتا۔ شامی عوام 6 دہائیوں سے لوٹی جانے والی دولت کی واپسی کے منتظر ہیں۔ تاہم اس کا دار ومدار تین باتوں پر ہے : سیاسی حل کی نوعیت، عالمی ممالک کا تعاون اور لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کے لیے کی گئی کوششوں پر عالمی برادری کا جواب .. اس پر عمل درامد کے واسطے شام میں پیشہ وارانہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی ضرورت ہے جو قومی سطح پر بھروسے اور بین الاقوامی سطح پر اچھی ساکھ کی حامل ہو۔