قطر سے تعلق رکھنے والے الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک کے ایک معروف میزبان نے اس سازشی نظریے کی تشہیر کی کوشش کی ہے کہ امریکا اور اسرائیل ایران میں 1979ء میں برپا شدہ انقلاب کو عرب ممالک میں برآمد کرنے کے آئیڈیا کو پھیلانے میں ملوّث تھے تاکہ اس طرح وہ اسرائیل کو فائدہ پہنچا سکیں۔
الجزیرہ کے پیش کار فیصل القاسم نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ اس نظریے کو امریکا اور اسرائیل ہی نے پھیلایا تھا کہ عرب ریاستوں میں بھی اس طرح کے انقلاب برپا ہوسکتے ہیں۔ ان کے بہ قول اس کے نتیجے میں عرب لیڈر ایران کے خلاف اسرائیل کے شراکت دار بن گئے تھے۔
القاسم نے یہ تبصرہ یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان تاریخی امن معاہدے کے تناظر میں کیا ہے۔اس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے معمول کے سفارتی ، سیاسی اور تجارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔یو اے ای نے ہفتے کے روز اسرائیل کے بائیکاٹ کا قانون بھی سرکاری طور پر منسوخ کردیا ہے اور اسرائیلیوں کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی اجازت دے دی ہے۔
اسرائیل نے اس معاہدے کے بدلے میں اپنے مقبوضہ مغربی کنارے میں واقع بعض فلسطینی علاقوں کو اپنی ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے سے دستبرداری سے اتفاق کیا ہے۔امریکا اور بحرین نے اس معاہدے کی حمایت کا اظہار کیا ہے جبکہ دوحہ سے نشریات پیش کرنے والا الجزیرہ چینل اپنی کوریج میں تعصب کی حد تک اس کی مخالفت کررہا ہے اور قطر کےاسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کی پردہ پوشی کررہا ہے۔
اس چینل کا نعرہ یہ ہے:’’رائے اور دوسروں کی رائے‘‘ لیکن اس نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی منفی انداز میں کوریج کی ہے اور اس عمل میں خود اپنی تاریخ ہی کو فراموش کردیا ہے کہ وہ خود اسرائیلی عہدے داروں کی قطر میں اور آن ائیر میزبانی کرتا رہا ہے۔
یادرہے کہ الجزیرہ نے 1996ء میں جب اپنی نشریات کا آغاز کیا تھا تو اس نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلیم) میں اپنا بیورو اور تل ابیب میں اپنا دفتر قائم کیا تھا اور اسرائیل میں اپنا نمایندہ مقرر کیا تھا۔ وہ پہلا عرب چینل تھا جس نے یہ کام کیا تھا۔
الجزیرہ کے یہ نمایندہ ایک عرب ٹیلی ویژن پر اسرائیلیوں کی نموداری کا دفاع کرتے رہے ہیں۔جب اسرائیلی حکام نے ان صاحب پر پابندی لگانے کی دھمکی دی تو انھوں ایک اسرائیلی اخبار میں مضمون لکھا تھا۔
الجزیرہ نے فروری 2018ء میں بھی ایک بڑا تنازع کھڑا کیا تھا۔اس نے اپنے مقبول پروگرام ’’مخالف سمت‘‘ میں اسرائیل کی مسلح افواج کے عرب میڈیا کے لیے ترجمان اویشے ادارعی کو بلایا تھا۔ اتفاق سے اس پروگرام کے میزبان فیصل القاسم ہی تھے۔