بغداد سے بصرہ تک غیر منضبط اسلحہ برآمد کرنے کی مہم

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

عراق میں بالخصوص بغداد اور بصرہ کے صوبوں میں گذشتہ چند ماہ کے دوران سیاسی و سماجی کارکنان، صحافیوں اور محققین کی ہلاکتوں اور ٹارگٹ کلنگ کے بعد وزارت داخلہ کی نگرانی میں بعض اقدامات سامنے آ رہے ہیں۔ ان کا مقصد قاتلوں کا تعاقب، غیر منضبط ہتھیاروں اور منشیات کے معاملے پر قابو، قبائلی تنازعات کا حل اور ان مجرموں کی گرفتاری ہے جن کو پکڑنے کے احکامات پر ابھی تک عمل درامد نہیں ہوا۔

سیکورٹی اداروں کے میڈیا سیل نے ہفتے کو جاری بیان میں تصدیق کی ہے کہ سیکورٹی فورسز نے آج علی الصبح دارالحکومت بغداد کے مشرق میں واقع الحسینیہ کے علاقے میں سرچ آپریشن کیا۔ اس علاقے میں کچھ عرصہ قبل تنازعات کے دوران درمیانے اور ہلکے ہتھیاروں کا خطر ناک استعمال دیکھا گیا۔ سرچ آپریشن کے دوران قانون کے مطابق شہریوں سے مختلف نوعیت کا اسلحہ برآمد کر لیا گیا۔ بیان کے مطابق سرچ آپریشن کا دائرہ کار ہر اس علاقے تک پہنچے گا جہاں تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کے دوران ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ بیان میں شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور سیکورٹی کی خاطر ہر قسم کا تعاون کریں۔

Advertisement

ادھر جنوبی شہر بصرہ میں آج ہفتے کی صبح سیکورٹی آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ بصرہ آپریشنز کے کمانڈر اکرم صدام مدنف کے مطابق آپریشن کا مقصد اس غیر منضبط اسلحے کو برآمد کرنا ہے جو شہریوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بصرہ کے جنوبی صوبے میں اس آپریشن کے سبب کرفیو نہیں لگایا جائے گا۔ البتہ سرچ آپریشن کے مقامات پر جزوی ناکہ بندی کی جائے گی۔ مدنف نے باور کرایا کہ سیکورٹی فورسز گھروں میں ایک سے زیادہ ہلکے ہتھیار کی اجازت نہیں دیں گی۔ آپریشن 5 روز جاری رہے گا جس کے بعد اس کے نتائج کا جائزہ لینے کے لیے ایک کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

عراق میں کئی ماہ سے یہ عوامی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں مظاہروں کے آغاز کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نوجوانوں کو موت کی نیند سلا دینے والے قاتلوں کا احتساب کیا جئے۔ مذکورہ مظاہرے ملک میں بدعنوانی اور کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں کیے گئے۔

عراقیوں کی ایک بڑی تعداد وزیر اعظم مصطفی الکاظمی سے امیدیں وابستہ کر چکی ہے جنہوں نے بارہا مظاہرین کے تحفظ اور کارکنان کے قاتلوں کے احتساب کا وعدہ کیا۔ اگرچہ ابھی تک کسی ایک مشتبہ شخص کے خلاف بھی عدالتی کارروائی نہیں کی گئی۔

یاد رہے کہ عراق میں گذشتہ برس یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران پرتشدد واقعات اور ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیاں دیکھنے میں آئیں۔ اس دوران سرگرم کارکنان، میڈیا پرسنز اور وکلاء کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ کی کئی کارروائیاں سڑکوں پر لگے سیکورٹی کیمروں کی آنکھ میں محفوظ ہو گئیں تاہم اس کے باوجود ابھی تک کسی ملزم کو حراست میں نہیں لیا گیا۔

مظاہروں کا آغاز معاشی حقوق کے حصول اور بدعنوانی کے انسداد سے متعلق مطالبات سے ہوا تھا۔ بعد ازاں یہ مطالبات سیاسی صورت اختیار کر گئے اور عوام نے ملک میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ اس دوران پرتشدد واقعات میں سیکڑوں مظاہرین ہلاک ہوئے۔

العربیہ کو دیے گئے ایک سابقہ بیان میں انسانی حقوق کمیشن کے سرکاری ترجمان علی البیاتی نے واضح کیا تھا کہ عراق میں مظاہروں کے دوران 550 سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔

مقبول خبریں اہم خبریں