ترکی کی فضائیہ کے طیاروں نے ایک بار پھر عراقی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرحد کے نزدیک ایک کرد اکثریتی گاؤں کو بم باری کا نشانہ بنایا۔ یہ بات کرد ذرائع نے جمعرات کی شب بتائی۔
دریں اثنا عراق میں ترکی کے سفیر فاتح یلدز کے مطابق ان کے ملک نے عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کو ترکی کے دورے کی سرکاری طور پر دعوت دی ہے۔
یلدز کا یہ بیان جمعرات کے روز عراق کی قومی سلامتی کے مشیر قاسم الاعرجی سے ملاقات کے دوران سامنے آیا۔ ملاقات میں دونوں شخصیات نے دو طرفہ تعلقات اور ان کو اس مقصد سے مضبوط بنانے کے طریقوں پر بات چیت کی یہ دونوں پڑوسی ملکوں اور ان کے عوام کے مفاد میں ہو۔
قاسم الاعرجی کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر نے باور کرایا ہے کہ "مصطفی الکاظمی کی حکومت عراق اور ترکی کے درمیان تمام شعبوں میں تعلقات کے دوام اور ان کی ترقی کی شدید خواہش رکھتی ہے۔ دونوں ممالک مشترکہ مفادات اور متبادل اقتصادی مفادات کے ساتھ مربوط ہیں لہذا ہمیں ان تعلقات کو پروان چڑھانے پر کام کرنا ہو گا"۔
اس موقع پر ترکی کے سفیر کا کہنا تھا کہ "صدر رجب طیب ایردوآن ترکی اور عراق کے درمیان تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور حالات سازگار ہونے پر عراق کے دورے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ ہم نے مصطفی الکاظمی کو ترکی کے دورے کی سرکاری دعوت بھی دی ہے"۔
یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل ترکی کے توپ خانوں کی جانب سے داغے گئے 4 گولے عراقی کردستان کے صوبے دھوک میں اورمان گاؤں پر گرے تھے۔ ان میں دو گولے ایسے جگہ گرے جہاں سے 70 میٹر کے فاصلے پر کئی گھر موجود تھے۔
یہ گولہ باری ایسے وقت میں ہوئی جب عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کردستان ریجن کا دورہ کر رہے تھے۔ دورے میں دھوک صوبے کا علاقہ زاخو بھی شامل تھا۔ اس موقع پر الکاظمی نے کردستان کی حکومت کے سربراہ مسرور بارزانی سے ملاقات میں عراق کی خود مختاری سے متعلق بات چیت کی۔