مقبوضہ القدس: یہودی آباد کار کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے باوجود مسجد الاقصیٰ میں داخل

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

اسرائیلی حکومت کے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلیم) میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حال ہی میں نافذ کردہ سخت لاک ڈاؤن کے باوجود انتہا پسند یہودی آباد کار اتوار کے روز مسجد الاقصیٰ میں داخل ہوگئے ہیں اور انھوں نے وہاں عبادت کی ہے۔

انتہا پسند یہودی آباد کار اپنے نئے سال رُوش ہَشَنَہ (رُوش ہاشَنَاه) کے آغاز کے موقع پر مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے تھے۔اسی احاطے میں گنبدِ صخرہ سمیت چھے مساجد واقع ہیں۔

Advertisement

تنظیم آزادی فلسطین ( پی ایل او) سے وابستہ فلسطین نیوز اور انفارمیشن ایجنسی نے انھیں ’’مذہبی آباد کار‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیلی پولیس کی بھاری مسلح نفری ان کی معیّت میں مسجد پہنچے تھے اور اسی کے حصار میں انھوں نے ’’مذہبی رسومات ادا کی ہیں اور یہ اشتعال انگیز چکر لگایا ہے۔‘‘

اسرائیلی حکومت نے ان یہودی آباد کاروں کی اس اشتعال انگیز حرکت سے دو روز قبل ہی جمعہ کو کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مقبوضہ بیت المقدس میں دوسرا لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا اور تمام مکینوں کو آیندہ تین ہفتے تک اپنے مکانوں سے صرف ایک ہزار میٹر کی حدود میں رہنے کا حکم دیا تھا۔

الاقصیٰ کے امور کے ذمے دار فلسطینی حکام نے اسی روز اس کے احاطے کو تین روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔تاہم یہ آج اتوار کو یہود اور مسلمانوں کے لیے کھلی تھی۔

مسلمان مسجدالاقصیٰ کوحرم الشریف (القدس) بھی کہتے ہیں جبکہ یہود کے نزدیک یہ ٹیمپل ماؤنٹ ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں یہودی معبد تعمیر کیا گیا تھا لیکن وہ دو مرتبہ منہدم ہوا تھا اور اسی جگہ پر بعد میں مسجد الاقصیٰ کو تعمیر کیا گیا تھا۔

بہت سے یہودی آباد کار مقبوضہ بیت المقدس میں دیوار غربی میں عبادت کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں کے دوران میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند یہودی آباد کاروں کی مسجد الاقصیٰ میں مداخلت بڑھ گئی ہے اور وہ اس کے اندر عبادت پر اصرار کرتے چلے آرہے ہیں۔اس پر مقامی مسلم آبادی اور دنیا کے دوسرے ممالک اور خطوں میں آباد مسلمان سخت ردعمل کا اظہار کرچکے ہیں۔

اردن مسجد الاقصیٰ کے تولیتی امور کا ذمے دار ہے۔اس نے اسرائیلی کی مسلمانوں کے اس قبلہ اول میں مسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے۔

العربیہ انگلش نے اس مسئلہ پر اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے ردعمل جاننے کے لیے رابطہ کیا تو اس نے اسرائیلی پولیس سے رجوع کرنے کی ہدایت کی مگر اسرائیلی پولیس کے ترجمان نے بار بار کے رابطے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔

مقبول خبریں اہم خبریں