مقبوضہ القدس: یہودی آباد کار کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے باوجود مسجد الاقصیٰ میں داخل
اسرائیلی حکومت کے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلیم) میں کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حال ہی میں نافذ کردہ سخت لاک ڈاؤن کے باوجود انتہا پسند یہودی آباد کار اتوار کے روز مسجد الاقصیٰ میں داخل ہوگئے ہیں اور انھوں نے وہاں عبادت کی ہے۔
انتہا پسند یہودی آباد کار اپنے نئے سال رُوش ہَشَنَہ (رُوش ہاشَنَاه) کے آغاز کے موقع پر مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے تھے۔اسی احاطے میں گنبدِ صخرہ سمیت چھے مساجد واقع ہیں۔
تنظیم آزادی فلسطین ( پی ایل او) سے وابستہ فلسطین نیوز اور انفارمیشن ایجنسی نے انھیں ’’مذہبی آباد کار‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیلی پولیس کی بھاری مسلح نفری ان کی معیّت میں مسجد پہنچے تھے اور اسی کے حصار میں انھوں نے ’’مذہبی رسومات ادا کی ہیں اور یہ اشتعال انگیز چکر لگایا ہے۔‘‘
Israeli settlers raid Al-Aqsa Mosque Compound accompanied by Israeli soldiers. These provocative raids raise tensions in #Jerusalem and increase Palestinian fears that Israel is intent on compromising the historical status quo of Jerusalem's holy sites. Video by @Silwanic1 pic.twitter.com/vyfN4HCi9v
— PLO Department of Public Diplomacy & Policy (@PalestinePDP) September 20, 2020
اسرائیلی حکومت نے ان یہودی آباد کاروں کی اس اشتعال انگیز حرکت سے دو روز قبل ہی جمعہ کو کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مقبوضہ بیت المقدس میں دوسرا لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا اور تمام مکینوں کو آیندہ تین ہفتے تک اپنے مکانوں سے صرف ایک ہزار میٹر کی حدود میں رہنے کا حکم دیا تھا۔
الاقصیٰ کے امور کے ذمے دار فلسطینی حکام نے اسی روز اس کے احاطے کو تین روز کے لیے بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔تاہم یہ آج اتوار کو یہود اور مسلمانوں کے لیے کھلی تھی۔
مسلمان مسجدالاقصیٰ کوحرم الشریف (القدس) بھی کہتے ہیں جبکہ یہود کے نزدیک یہ ٹیمپل ماؤنٹ ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں یہودی معبد تعمیر کیا گیا تھا لیکن وہ دو مرتبہ منہدم ہوا تھا اور اسی جگہ پر بعد میں مسجد الاقصیٰ کو تعمیر کیا گیا تھا۔
بہت سے یہودی آباد کار مقبوضہ بیت المقدس میں دیوار غربی میں عبادت کرتے ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں کے دوران میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند یہودی آباد کاروں کی مسجد الاقصیٰ میں مداخلت بڑھ گئی ہے اور وہ اس کے اندر عبادت پر اصرار کرتے چلے آرہے ہیں۔اس پر مقامی مسلم آبادی اور دنیا کے دوسرے ممالک اور خطوں میں آباد مسلمان سخت ردعمل کا اظہار کرچکے ہیں۔
اردن مسجد الاقصیٰ کے تولیتی امور کا ذمے دار ہے۔اس نے اسرائیلی کی مسلمانوں کے اس قبلہ اول میں مسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے۔
العربیہ انگلش نے اس مسئلہ پر اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے ردعمل جاننے کے لیے رابطہ کیا تو اس نے اسرائیلی پولیس سے رجوع کرنے کی ہدایت کی مگر اسرائیلی پولیس کے ترجمان نے بار بار کے رابطے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔