ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو ملک بدر کیوں نہیں کیا ؟

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

سعودی عرب کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سکریٹری شہزادہ بندر بن سلطان نے انکشاف گذشتہ روز العربیہ نیوز چینل پر نشر ہونے والے پروگرام وثائقي "مع بندر بن سلطان" کی پہلی قسط میں فلسطینی اسرائیلی تنازع کے حوالے سے کئی تفصیلات کا انکشاف کیا۔

اس ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے استفسار کیا کہ "متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے بعد ترکی نے ابوظبی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر انقرہ سے اسرائیلی سفیر کو کیوں نہیں نکالا گیا یا ترکی نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو واپس کیوں نہیں بلایا؟"۔

Advertisement

ترکی نے امارات اور اسرائیل کے درمیان اگست میں اعلان شدہ امن معاہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس موقع پر ترکی نے فلسطینیوں کے حقوق کی سپورٹ کرنے اور بیت المقدس کے فلسطینیوں کے لیے دارالحکومت ہونے کے موقف پر ڈٹے رہنے کا اعلان کیا تھا ... جب کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان تجارتی سرگرمیاں اسی طرح جاری و ساری ہیں۔ ترکی نے تل ابیب سے اپنا سفیر بھی نہیں واپس بلایا یا انقرہ میں اسرائیلی سفیر کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اس رجحان کو کئی مبصرین نے مسئلہ فلسطین پر تجارت کرنے کے مترادف قرار دیا۔

سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ کا یہ انٹرویو 3 اقساط میں نشر کیا جائے گا۔ انٹرویو میں شہزادہ بندر بن سلطان نے مسئلہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی تمام تر کوششوں پر روشنی ڈالی۔ شہزادہ بندر کے مطابق مسئلہ فلسطین حق پر مبنی ہے مگر اس کے وکلاء ناکام ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کی قیادت نے اختلافات اور بے سروپا حرکتوں کے سبب عرب اور عالمی سطح پر اس انتہائی اہم معاملے کو نقصان پہنچایا ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں