سعودی عرب کے تاریخی شہر تبوک کے اطراف میں پھیلے پہاڑ کئی حوالوں سے مقامی اور غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق تبوک کے پہاڑوں کی جغرافیائی اہمیت کے ساتھ ساتھ انہیں غیرمعمولی ثقافتی اہمیت بھی دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ ان پہاڑوں کی چٹانوں پر سیکڑوں سال کی پرانی اسلامی اور عرب نقش ونگاری اور کندہ کاری ہے۔
تبوک کے مغرب میں 'بجدہ' پہاڑی سلسلے میں واقع 'حِسمی' چٹانوں اور پہاڑی چوٹیوں کو ان کے قدیم عربی اور اسلامی نقوش کی بہ دولت مملکت میں 'کھلا میوزیم' قرار دیا جاتا ہے۔ ان پہاڑوں کی چٹانوں پر لکھی گئی عبارتیں دیکھنے والوں کو سیکڑوں سال ماضی میں لے جاتی اور پرانے تہذیب وتمدن سے روش ناس کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں دیکھنے والے ان میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔ ان پہاڑوں کی صرف ثقاقتی اہمیت نہیں بلکہ بالعموم سعودی عرب بالخصوص تبوک کے علاقے کا قدرتی حسن ہیں۔
فوٹو گرافر عبدالالہ الفارس' نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'حمسی' پہاڑی چوٹیوں کو ثقافت ماہرین اور مورخین دونوں کے ہاں غیرمعمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ پہاڑی چوٹیاں عرب زبان وادب کے طلبا کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ شاید یہ اب تک سامنے آنے والے پہلے پہاڑ ہیں جن کی چٹانوں پر ہمیں زمانہ قدیم کی عربی زبان میں لکھی عبارتیں ملتی ہیں۔ ان چٹانوں پر حمسائی عربی رسم الخط میں عبارتیںکندہ ہیں۔ یہ رسم الخط نبطی طرز تحریر سے کافی مشابہت رکھتا ہے جب کہ بعض مقامات پر کوفی رسم الخط بھی ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حمسی پہاڑی چوٹیاں تبو کے جنوب مغرب بالخصوص بجدہ نامی مشہور پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ سعودی عرب کے 'نیوم سٹی' پروجیکٹ کے اندر واقع ہونے کی وجہ سے ان پہاڑوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
یہ پہاڑی چٹانیں تبوک شہر کے شمال مغرب میں 100 کلو میٹر کی مسافت پر ہیں۔ یہ کمان کی شکل کا ایک پہاڑ ہے جس کے اطراف میں ریتلے صحرا اور قدرتی مناظر سے بھرپور مقامات ہیں۔ بھورے رنگ کے مٹی کے ٹیلے اپنی خوبصورتی کی وجہ سے اپنی الگ پہنچان رکھتے ہیں۔