شام میں 2012ء میں لا پتہ ہونے والے امریک صحافی اوسٹن ٹائس کی رہائی کی خبر گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
صحافیوں اور سرگرم کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل کر دی گئی کہ ایک طیارے نے لبنان میں البقاع سے امریکا کے لیے اڑان بھری جس میں مذکورہ صحافی موجود ہے۔
اگر یہ خبر درست ہوئی تو یہ امریکی صحافی کے اہل خانہ کے لیے بڑی خوش خبری ہو گی جو کئی مرتبہ اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ اوسٹن زندہ ہے اور شامی حکومت کی حراست میں ہے۔ انہوں نے امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اوسٹن کی رہائی کے واسطے دمشق حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے۔
بیروت میں ذرائع نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو باور کرایا کہ اس معاملے کو انتہائی رازداری میں رکھا گیا ہے۔ لہذا اس کی حساسیت کے سبب کوئی بات افشا نہیں کی جا سکتی۔
دوسری جانب امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے نمائندے ڈیون نیسنبوم نے جمعے کے روز اپنی ٹویٹ میں امریکی ذمے داران کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صحافی اوسٹن ٹائس کے رہا کیے جانے کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
لبنان کی جنرل سیکورٹی کے ڈائریکٹر المدير میجر جنرل عباس ابراہیم نے گذشتہ ماہ اکتوبر کے وسط میں واشنگٹن میں امریکی انتظامیہ کے سینئر ذمے داران کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ اس دوران شام میں اغوا ہونے والے افراد کی رہائی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ابراہیم نے اپنے دورے میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر روبرٹ اوبرائن اور امریکی مرکزی انٹیلی جنس کے ادارے CIA کی سربراہ جینا ہیسبل سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے گذشتہ ماہ وائٹ ہاؤس کے ذمے داران کے حوالے سے بتایا تھا کہ وائٹ ہاؤس میں انسداد دہشت گردی کے سینئر ترین عہدے دار کیش بیٹل نے رواں سال کے دوران دمشق کا سفر کیا تھا۔ گذشتہ ماہ امریکی میڈیا نے بتایا تھا کہ ایک امریکی عہدے دار نے دمشق کا دورہ کیا جہاں انہوں نے شامی حکومت کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں کا انعقاد کیا۔ ان ملاقاتوں کا مقصد کم از کم ان دو امریکی شہریوں کی رہائی تھی جن کے بارے میں واشنگٹن کا خیال ہے کہ وہ دمشق میں زیر حراست ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا نے 2012ء میں شامی عوامی مظاہرین کے خلاف بشار الاسد حکومت کے کریک ڈاؤن پر احتجاجا دمشق کے ساتھ اپنے سفارت تعلقات منقطع کر لیے تھے۔
امریکی انتظامیہ اوسٹن ٹائس کی رہائی کے لیے کوشاں ہے۔ اوسٹن ایک فری لانس جرنسلٹ ہیں۔ وہ امریکی میرینز کے سابق افسر بھی رہ چکے ہیں۔ اوسٹن 2012ء میں شام میں لا پتہ ہو گئے تھے۔ ان کے علاوہ اس عرصے میں کم از کم پانچ مزید امریکی شہری بھی غائب ہوئے۔