سعودی عرب نے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس (یروشلیم ) کے نزدیک یہود کو بسانے کے لیے 1257 نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کو مسترد کردیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔اسرائیل نے ان مکانوں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے داروں سے بولیاں طلب کی ہیں۔
سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’اسرائیل کا یہ اقدام بین الاقوامی قراردادوں کے منافی ہے،اس سے تنازع کے دو ریاستی حل کے لیے کوششوں کو نقصان پہنچے گا اور خطے میں قیام امن کے لیے کوششوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
اسرائیل نے گذشتہ اتوار کو مقبوضہ بیت المقدس کے نزدیک واقع حساس علاقے میں یہودی آبادکاروں کے لیے نئے مکانوں کی تعمیر کے اس منصوبے کوآگے بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ اسرائیل امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کے اقتدار سنبھالنے سے قبل اس منصوبہ پر تیزی سے کام کرنا چاہتا ہے۔
اسرائیل کی لینڈ اتھارٹی (آئی ایل اے) نے اپنی ویب سائٹ پر گیوات حاماتوس کے علاقے میں 1257 نئے مکانوں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے داروں کو بولیاں دینے کی دعوت دی ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یا ہو نے فروری میں اس منصوبہ کا اعلان کیا تھا لیکن عالمی برادری کی جانب سے شدید مخالفت کے بعد اس کو منجمد کردیا تھا۔
آئی ایل اے کے اعلان کے مطابق بولیوں کی مدت 18 جنوری کو ختم ہوگی اور اس سے دو روز بعد نومنتخب صدر جوبائیڈن اپنے عہدے کا حلف لیں گے اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ منصب صدارت پر فائز ہوں گے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چار سالہ دور صدارت میں اسرائیل نوازی میں پیش پیش رہے ہیں۔انھوں نے فلسطینی سرزمین پر یہودی آبادکاروں کو بسانے کے منصوبوں کی نہ صرف سرپرستی کی ہے بلکہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کرلیا ہے اور امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب سے اس متنازع شہر میں منتقل کردیا تھا۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ سرزمین پر یہود کی آبادکاری بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ان کے لیے ٹینڈر کا اجراء اسرائیل کی تنازع کے دوریاستی حل کو عملی طور پرختم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اسرائیل کے اس منصوبہ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے مشرقی یروشلیم کے بعض حصے نزدیک واقع شہر بیت لحم سے کٹ کر رہ جائیں گے۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے بھی یہ مسئلہ اٹھایا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ انھیں اسرائیلی ٹینڈر پر گہری تشویش لاحق ہے۔
انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’یہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یروشلیم اور بیت لحم کے درمیان ایک اہم جگہ ہے۔اس علاقے میں کسی بھی بستی کی تعمیر سے ایک قابل عمل اور باہم مربوط فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘‘
اسرائیل کی یہودی آبادکاری مخالف تنظیم اب امن (پیس نو) نے نیتن یاہو کی حکومت پر ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار کے آخری ہفتوں کے دوران میں موقع سے فائدہ اٹھانے کا الزام عاید کیا ہے تاکہ ’’وہ گیوات حاماتوس میں زمینی حقائق کو تبدیل کرسکے۔‘‘
اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے پر تاریخی ، سیاسی اورتورات کے روابط کی بنا پر حق ملکیت کا دعوے دار ہے۔اس نے اب تک چار لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ یہودی آبادکاروں کو کم وبیش تیس لاکھ فلسطینیوں کے درمیان مقبوضہ مغربی کنارے میں لابسایا ہے۔