فلسطینی اتھارٹی امارات اور بحرین میں سفیر واپس بھیجنے کے لیے تیار ہے: فلسطینی عہدیدار
فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ روابط کی بحالی کے اعلان کے بعد ایک فلسطینی ذمے دار نے کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلم کرنے اور تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کے خلاف بہ طور احتجاج واپس بلائے گئے سفیر متحدہ عرب امارات اور بحرین میں دوبارہ تعینات کیے جا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ چھ ماہ کے تعطل کے بعد اس نے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی اور سول شعبوں میں روابط بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تحریک فتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن اورشہری امور کے وزیر حسین الشیخ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے ٹویٹر پر لکھا کہ "صدر محمود عباس کے عالمی رہ نمائوں کے ساتھ ہونے والے رابطوں میں اسرائیل کے ساتھ طے پائے معاہدوں کی تل ابیب کی جانب سے پاسداری کویقینی بنانے کے زبانی اور تحریری پیغامات کے بعد صہیونی ریاست کے ساتھ 19 مئی 2020ء سے پہلے والی پوزیشن بحال کی جائے گی۔ سول اور سکیورٹی کوآرڈینیشن کی واپسی کا مطلب اسرائیل کے ذریعہ واجب الادا ٹیکس محصولات کی پریشانی کو حل کرنا اور انہیں اتھارٹی کے خزانے میں واپس کرنا ہے تاکہ ملازمین کی تنخواہوں کے مسئلے کا حل نکالا جا سکے"۔
حسین الشیخ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون بڑھانے سے صحت کے شعبے میں اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین تعاون کو فروغ ملے گا اور دونوں فریق 'کوڈ 19' کی وبا کو قابو کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
حماس کی مذمت
کلیئرنس فنڈز وہ ٹیکس ہیں جو اسرائیلی وزارت خزانہ ماہانہ آنے والی اشیا سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں جمع کرکے فلسطینی وزارت خزانہ کو منتقل کرنے کی پابند ہے تاہم اسرائیل نے کچھ عرصے سے فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں کی ادائی روک رکھی ہے۔ ان ٹیکسوں کی مالیت 180 ملین ڈالر ماہانہ ہے۔
دوسری طرف حماس نے فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار کے اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کی بحالی کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے یہ فیصلہ فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کی بحالی قومی مصالحت اور سیاسی شراکت کے لیے ہونے والی کوششوں کو تباہ کردے گا۔