ایران نے خطے میں اپنے حلیفوں کو عارضی طور پر کشیدگی پھیلانے سے روک دیا

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

ایران نے مشرق وسطی کے مختلف حصوں میں اپنے حلیفوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہائی الرٹ رہیں اور امریکا کے ساتھ کشیدگی سے اجتناب برتیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی مدت کے آخری ہفتوں میں حملوں کا کوئی سبب نہ مل سکے۔ یہ بات عراقی ذمے داران نے ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی کو بتائی۔

مذکورہ مطالبہ ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر کی جانب سے رواں ہفتے بغداد میں ایک اجلاس کے دوران سامنے آیا۔

Advertisement

یاد رہے کہ ٹرمپ کی مدت صدارت میں واشنگٹن اور تہران کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا۔ یہ کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب رواں سال جنوری میں بغداد کے ہوائی اڈے کے باہر ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کو ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ جواب میں ایران نے عراق میں امریکی فوجیوں کے خلاف میزائل حملہ کیا۔ اس کارروائی میں متععدد امریکی فوجی زخمی ہو گئے۔

ٹرمپ نے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے ایرانی جوہری معاہدے سے مئی 2018ء میں یک طرفہ طور پر علاحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد ایران پر دوبارہ سے شدید نوعیت کی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ان پابندیوں نے ایران کی معیشت کو مفلوج کر دیا۔

اس پیش رفت کے بعد سے ایران نے خود کو یورینیم کی افزودگی کے پروگرام پر عائد تمام پابندیوں اور قیود سے آزاد کر لیا۔ اگرچہ جوہری معاہدے میں دیگر بین الاقوامی شراکت دار ممالک نے اس سمجھوتے کو بچانے کی کوشش کی تاہم وہ بے فائدہ رہی۔

منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں دوبارہ شمولیت یا اس کے حوالے سے دوبارہ مذاکرات کے سلسلے میں اپنے منصوبے کا اعلان کر چکی ہے۔ البتہ اس حوالے سے تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کرسی صدارت سے کوچ کرنے سے قبل ممکنہ طور پر ایران کے خلاف کیا کارروائی کر سکتے ہیں۔ اس کارروائی میں بیرون ملک امریکا کے دشمنوں کے خلاف فوجی حملہ شامل ہو سکتا ہے۔

گذشتہ روز ایران کے رہبر اعلی کے مشیر حسین دہقان نے ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں خبردار کیا تھا کہ ایران پر امریکی حملے کے نتیجے میں خطے میں ایک "جامع جنگ" چھڑ سکتی ہے۔ دہقان نے ایرانی پاسداران انقلاب میں خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں وہ صدر حسن روحانی کے دور میں وزیر دفاع بھی رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہم جنگ کا خیر مقدم نہیں کرتے اور نہ اس کے آغاز میں دل چسپی رکھتے ہیں"۔

امریکا اور ایران کے درمیان مقابلے بازی کے آغاز کے بعد سے عراق کو ممکنہ میدان شمار کیا جا رہا ہے۔ حالیہ چند ماہ کے دوان بغداد میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے متعدد حملوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو مجبور کر دیا کہ وہ سفارتی مشن کی بندش کی دھمکی دے ڈالے۔

جو بائیڈن کے کرسی صدارت سنبھالنے سے دو ماہ قبل ایرانی القدس فورس کے سربراہ جنرل اسماعیل قآنی نے رواں ہفتے بغداد میں ایک اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں ایران نواز عراقی ملیشیا الحشد الشعبی میں شامل گروپ اور عراقی سیاسی شخصیات بھی موجود تھیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی نے عراقی سیاست دانوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ قآنی نے عراقی ملیشیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "اس وقت جذبات کو ٹھنڈا رکھیں اور عراق میں امریکی وجود کے خلاف حملوں کو فی الوقت روک دیں، البتہ اگر ایران کے حلیفوں پر امریکی حملہ ہوا تو تہران کا جواب اس حملے کی نوعیت کے مطابق ہو گا"۔

دوسری جانب لبنان میں حزب اللہ ملیشیا کے سربراہ حسن نصر اللہ نے اپنے حامیوں اور حلیفوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹرمپ کی صدارت کے باقی رہ جانے والے ہفتوں کے دوران احتیاط سے کام لیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں ٹیلی وژن پر خطاب کے دوران نصر اللہ کا کہنا تھا کہ آئندہ دو ماہ تک سب لوگوں کو خبردار اور محتاط رہنا چاہیے۔ تاہم انہوں نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی خطرے کے لیے تیار رہیں اور اگر امریکا یا اسرائیل نے کوئی حملہ کیا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔

تاہم اسماعیل قآنی کی جانب سے بغداد میں ایران کا پیغام پہنچانے کے چند گھنٹے بعد ہی دارالحکومت کے انتہائی حساس علاقے گرین زون میں کیٹوشیا راکٹوں کی بارش کر دی گئی۔ ان میں بعض راکٹ امریکی سفارت خانے سے چند میٹرز کے فاصلے پر گرے۔ اس دوران گرین زون کے باہر گرنے والے بعض راکٹوں سے ایک بچہ جاں بحق اور پانچ شہری زخمی ہو گئے۔

خیال ہے کہ عراقی حزب اللہ بریگیڈز سے مربوط ایک نہایت غیر معروف ملیشیا "اصحاب الكهف" نے راکٹ حملہ کیا اور پھر اس کی ذمے داری بھی قبول کر لی۔ ادھر عراقی حزب اللہ بریگیڈز نے راکٹ داغنے کی تردید کی۔

مقبول خبریں اہم خبریں