گذشتہ جمعہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں نامعلوم مسلح افراد کے حملے میں ایران کے چوٹی کے سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کے بعد ایران کی طرف سے بہ ظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ فخری زادہ ایرانی ایٹمی پروگرام کے لیے ناگزیر نہیں تھے۔ تاہم گذشتہ روز ایرانی صدر حسن روحانی کے 'ٹویٹر' اکاونٹ پر فخری زادہ اور صدر روحانی کے درمیان ملاقات کی تصاویر نے واضح کر دیا ہے کہ مقتول سائنسدان تہران رجیم کے لیے کتنے اہم تھے۔
ان تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ صدر حسن روحانی فخری زادہ کو ان کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں میڈل دے رہے ہیں۔ صدر کی طرف سے محسن فخری زادہ کے لیے اعزازو اکرام اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ فخری زادہ کا ایران کے جوہری پروگرام میں کلیدی کردار رہا ہے۔
مغربی انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے جاری کردہ رپورٹس میں محسن فخری زادہ کو ایران کے متنازع جوہری پروگرام کا باپ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور حصول کی کوششوں میں بہت زیاددہ مدد فراہم کی ہے۔
اگرچہ ایران نے کہا ہے کہ فخری زادہ جوہری سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھے تاہم انہوں نے کچھ وقت ایران میں توانائی کے حصول کے لیے یورینیم افزودگی کے پروگرام میں کام کیا تھا۔
مغربی عہیداروں کا کہنا ہے کہ فخری زادہ نے محسن فخری زاہ نے پرامن مقاصد کے لیے یورینیم افزودگی کے پروگرام کی آڑ میں جوہری وار ہیڈز کی تیاری کے لیے کام کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کے پروگرام میں فخری زاہ جیسے لوگوںنے اہم پیش رفت کی ہے اور انہوں نے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔