امریکی ذرائع ابلاغ نے وزارت خارجہ میں امریکی ذمے داران کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے اور عراق میں دیگر سفارتی تنصیبات میں کام کرنے والے امریکی سفارت کاروں کی تعداد میں کمی لا کر اسے نصف کر دیا ہے۔
یہ اقدام واشنگٹن اور تہران کے درمیان کشیدگی کی شدت میں اضافے کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ یہ پیش رفت تہران میں ایرانی جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کی ہلاکت کے چند روز بعد سامنے آئی ہے۔
اس سے قبل واشنگٹن میں العربیہ کے نامہ نگار نے بدھ کے روز انکشاف کیا تھا کہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر عراق میں امریکی ملازمین کی تعداد میں کمی کی جا رہی ہے۔ نامہ نگار کے مطابق مذکورہ کمی کا آغاز کئی روز پہلے ہوا تھا۔
یاد رہے کہ عراق میں امریکی سفارت خانہ اور دیگر امریکی عسکری ٹھکانوں کو رواں سال کے دوران درجنوں راکٹوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔
امریکی وزارت خارجہ کے ایک ذمے دار نے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ وزارت اپنے مشن، مقامی سیکورٹی کی صورت حال اور صحت سے متعلق حالات کے مطابق دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے حوالے سے اپنے موقف میں مسلسل ترمیم کرتی رہتی ہے۔ امریکی سرکاری ملازمین اور شہریوں کی سلامتی اور امریکی تنصیبات کی سیکورٹی وزارت خارجہ کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ ذمے دار نے مزید بتایا کہ "ہم عراق کے ساتھ مضبوط سفارتی شراکت داری باقی رکھیں گے۔ امریکی سفیر میتھیو ٹولر عراق میں رہیں گے اور بغداد میں امریکی سفارت خانہ کام کرتا رہے گا"۔
دوسری جانب ایک سینئر عراقی ذمے دار نے فرانس پریس کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ امریکی سفارتی عملے میں کمی کا فیصلہ سیکورٹی اندیشوں کی بنا پر کیا گیا۔ ذمے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ "یہ سیکورٹی تحفظات کی بنیاد پر سادہ سی کمی ہے .. وہ واپس آ سکتے ہیں ... یقینا یہ ایک عارضی سیکورٹی اقدام ہے"۔
عراقی ذمے دار نے یہ نہیں بتایا کہ بغداد سے انخلا کے فیصلے سے متعلق سفارتی عملے کی تعداد کتنی ہے۔ معلوم رہے کہ امریکی سفارت خانے میں سیکڑوں امریکی سفارتی اہل کار کام کرتے ہیں۔
واشنگٹن نے ایران کی ہمنوا عراقی جماعتوں کو راکٹوں اور دھماکا خیز آلات کے ذریعے حملوں کا ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ حملوں کا سلسلہ جاری رہنے کے ساتھ امریکا نے ان کو روکے جانے کے لیے عراق کو مہلت دی اور بغداد میں سفارت خانہ بند کر دینے کی دھمکی بھی دی۔
اس کے نتیجے میں ایران کی حمایت یافتہ عراقی جماعتوں نے اکتوبر کے وسط میں جنگ بندی پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد حملوں کا سلسلہ رک گیا تاہم 17 نومبر کو بغداد کے کئی علاقوں میں راکٹ گرے۔ اس کے نتیجے میں ایک عراقی لڑکی ہلاک ہو گئی۔
عراقی اور مغربی ذمے داران نے اس موقع پر کہا تھا کہ وہ جنگ بندی مضبوط ہونے کی توقع رکھتے ہیں تاہم واشنگٹن اب بھی عراق سے عسکری انخلا کے منصوبے بنا رہا ہے۔
نومبر کے اختتام پر ایک سینئر مغربی ذمے دار نے فرانس پریس کو دیے گئے بیان میں کہا کہ امریکا اس وقت تین آپشنز پر غور کر رہا ہے جن میں سے ایک جزوی انخلا ہے۔ ذمے دار کے مطابق "امریکا صرف سفارت کار اور بنیادی سفارتی عملہ باقی رکھنے کے آپشن پر غور کر رہا ہے"۔