سعودی عرب کے جنوب میں جیزان بندرگاہ کےقریب دائر کے پہاڑوں پر اعلیٰ معیار کی کافی کاشت کی جاتی ہے۔ مقامی سطح پر ان پہاڑی علاقوں میں کاشت ہونی والی کافی کو'الخولانی' کہاجاتا ہے۔ الخولانی نامی یہ کافی نئی نہیں بلکہ ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ الخولانی کافی کی تاریخ آٹھ صدیوںپر محیط ہے۔
سعودی مورخ یحییٰ المالکی نے 'العربیہ ڈاٹ نیٹ' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یورپی سیاحوں کے سفرناموں سے پتا چلتا ہے کہ یورپی ممالک کے تاجر 1612ٰء سے اس علاقے سے کافی کی تجارت کرتے تھے۔ ڈینش مورخ اور سیاح نیپور نے 1962ء میں اس علاقے کا سفر کیا۔ اس نے لکھا ہے کہ جیزان بندرگاہ کافی اور دوسرے سامان تجارت کی برآمدات کی وجہ سے بہت مشہور تھی۔
ایک سوال کے جواب میں یحییٰ المالکی نے کہا کہ کافی کے درخت جنوبی سعودی عرب کے پہاڑوں پر کافی کے درخت 615ھ یعنی 1218ء میں پوری طرح پھیل چکے تھے۔ اس وقت بھی اس علاقے کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں کافی نہ پائی جاتی تھی۔ حجاج کرام سفر حج کے موقعے پر حجاز مقدس مقدس سے دیگر تحائف میں کافی بھی لاتے۔ حجاج کرام حجاز سے کافی قاہر، دمشق اور استنبول لاتے۔ سنہ 1554ء کو ترکوں نے عرب کافی کا پہلا کیفے تیار کیا۔ اسے 'كهفيه kabveb' کا نام دیا گیا۔ وہاںسے کافی اٹلی تک پہنچی اور coffe کے نام سے مشہور ہوئی۔ وہاں سے فرانس اور دوسرے ممالک کے ہاں تک پھیلی۔ فرانس میں اس کا نام 'café' یا koffie پڑا۔ ہالینڈ میں kaffee، جرمن اور انگریزی میں Coffee ہے۔ لندن میں پہلا کافی مرکز1652 میں قائم ہوا۔
ایک سوال کے جواب میں المالکی نے بتایا کہ جنوبی سعودی عرب میں کافی کی متعدد اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ ان میں الخولانی، العدینی کے نام سے دو مشہور اقسام ہیں۔ ان کے پھل گول اور سیب کی شکل کے ہوتے ہیں۔
الدائر گورنری کو الخلولانی کافی کا دارالحکومت قرار دیا جاتا ہے۔ گورنری میں سالانہ 489,820 کافی کاشت کی جاتی ہے جب کہ اس علاقے میں 685,536 پھل دار درخت موجود ہیں۔ جازان میں کافی کے پھل دار درختوں کی تعداد 122,455 ہےجو 1596 کافی فارم میں تقسیم ہیں۔