شام کے صوبے الحسکہ کے دیہی علاقے میں واقع "الہول" کیمپ میں روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والے قتل کے واقعات نے خوف ناک صورت حال اختیار کر لی ہے۔ رواں ماہ جنوری کے آغاز سے اب تک کیمپ میں رہائش پذیر افراد میں سے کم از کم 13 کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ کیمپ میں 60 ہزار سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ ان کا تعلق شام اور عراق سے ہے۔ علاوہ ازیں کیمپ میں دنیا بھر کے متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین بھی سکونت پذیر ہیں۔ یہ داعش تنظیم کے ان غیر ملکی جنگجوؤں کی بیویاں ہیں جو 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' (ایس ڈی ایف) کے ساتھ لڑائی میں مارے گئے یا پھر قیدی بنا لیے گئے۔
مذکورہ کیمپ دنیا بھر کے سامنے حقیقی المیہ بنا ہوا ہے۔ بالخصوص جب کہ یہاں ہزاروں بچے تعلیم کے بغیر پڑے ہوئے ہیں۔ یہ بچے پانی، تعلیم اور قابل رہائش جیسی بنیادی انسانی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔
کیمپ میں پرتشدد واقعات کے حوالے سے ایس ڈی ایف کے ترجمان کا کہنا ہے کہ "الہول کیمپ کے تحفظ کی ذمے داری سیکورٹی فورس (آشایس) کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے"۔ اس بات کی تصدیق انسانی امور کے امور کے دفتر کے سربراہ خالد ابراہیم نے بھی کی ہے۔ یہ دفتر چند برس قبل شام کے شمال اور شمال مشرق میں 'ایس ڈی ایف' کے زیر کنٹرول علاقوں میں قائم ہونے والی "خود مختار" انتظامیہ کے ماتحت ہے۔
خالد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ الہول کیمپ کی صورت حال تمام لوگوں کو معلوم ہے۔ شام میں اقوام متحدہ کے دفتر کے رابطہ کار عمران رضا کئی مرتبہ کیمپ کا دورہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے نزدیک سے صورت حال کا جائزہ لیا ہوا ہے۔ وہ یہاں امن و امان کی صورت حال کی حساسیت سے بھی واقف ہیں۔
خالد کے مطابق الہول کیمپ میں رو نما ہونے والے پر تشدد واقعات کے نتیجے میں اب تک یہاں کام کرنے والے مقامی اور بین الاقوامی انسانی اور امدادی اداروں کا کوئی اہل کار یا کارکن زخمی نہیں ہوا۔
خالد نے مزید بتایا کہ یہاں ایسی تنظیمیں بھی ہیں جو داعش تنظیم کے جنگجو قیدیوں کے گھرانوں کی جہادی خواتین کو کیمپ سے باہر اسمگل کر رہی ہیں۔ خالد نے ترکی پر الزام عائد کیا کہ وہ ان اسمگلروں کے نیٹ ورک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ خالد کے مطابق کیمپ کے تحفظ کی ذمے داری سب سے پہلے اقوام متحدہ اور پناہ گزینوں کے ہائی کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ یہ صرف خود مختار انتظامیہ کے کاندھوں پر عائد نہیں۔
خالد ابراہیم کا کہنا ہے کہ الہول کیمپ میں اس وقت 30 سے زیادہ بین الاقوامی این جی اوز اور کئی دیگر مقامی تنظیمیں مصروف عمل ہیں۔ یہ کیمپ میں تقریبا 20 ہزار شامی تارکین اور 30 ہزار کے قریب عراقی پناہ گزینوں کی مدد کر رہی ہیں۔ ان کے علاوہ داعش کے جنگجوؤں کی بیویوں اور ان کے ساتھ موجود بچوں کی تعداد 11 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
خالد ابراہیم کے مطابق کیمپ میں موجود شامیوں کی اکثریت نے اپنے شہر یا گاؤں واپسی سے انکار کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں عالمی برادری سے اپیل کا سلسلہ جاری ہے کہ وہ کیمپ میں موجود اپنے باشندوں میں شامل غیر ملکی خواتین اور بچوں کو لے لیں تاہم عراق سمیت کوئی بھی ملک اس سلسلے میں حرکت میں نہیں آیا۔
دمشق میں 'انسانی امور کی رابطہ کاری سے متعلق اقوام متحدہ کے بیورو' کی سرکاری ترجمان دینیل مویلن نے تمام متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ الہول کیمپ میں امن و امان کو یقینی بنائیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کیمپ میں 12 برس سے کم عمر کے 31 ہزار بچے موجود ہیں۔
-
شام میں سب سے بڑی مالیت کا کرنسی نوٹ جاری، بشار اور اس کے والد کی تصاویر غائب
شامی حکومت کی طرف سے حالیہ مہینوں میں بار بار ان خبروں کی تردید کی جاتی رہی ہے کہ حکومت ایک نیا کرنسی نوٹ لا رہی ہے۔ اس تردید کے باوجود حکومت نے 5000 ... مشرق وسطی -
’’شامی کیک‘‘ کی بندر بانٹ: روس، ایران اور ترکی میں مقابلہ
روس کی نگرانی میں شامی اور اسرائیلی وفود کی شام کی سرزمین پر ملاقات مشرق وسطی -
شام :حمص میں تیل اور گیس کی تنصیبات کے نزدیک دھماکوں کے بعد آتش زدگی
شام کے وسطی شہر حمص میں تین زوردار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق حمص میں تیل صاف کرنے کے بڑے کارخانے کے تیل ذخیرہ کرنے کے ... مشرق وسطی