دبئی سے نشریات پیش کرنے والے'العربیہ' نیوز چینل کے فلیگ شپ پروگرام'مہمہ خاصہ' میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان سمندری حدود کے تعین کے تنازع پر روشنی ڈالی گئی۔ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان سمندری حدود کے تعین کی کوششیں اقوام متحدہ اور امریکا کی ثالثی کے تحت جاری ہیں تاہم دونوں طرف سے اس حوالے سے موجود اختلافات کی وجہ سے یہ معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔
لبنان میں العربیہ چینل 'غنوہ یتیم' نے ٹیم کے ہمراہ لبنان کی جنوبی سرحد کا دورہ کیا۔ انہوںنے وہاں پر یونیفیل کے ترجمان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی پر بات ہوئی اور ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان سمندری حدود کے تعین کےحوالے سے ہونے والی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اسرائیل اور لبنان کے درمیان سمندری حدود کے تعین کے بارے میں لبنانی سیاسی قوتوں میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔
دونوںملکوں کے درمیان خشکی اور سمندری پانی کی خاموشی میں کھینچی گئی نیلی لکیرنا مکمل ہے۔ یہ علاقہ گیس کے وسائل سے مالا مال ہے اور اس کی بنا پر دونوں ملکوں کے درمیان لڑائی چھڑ سکتی ہے۔
لبنان اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا ایک محرک حزب اللہ بھی ہے۔ دونوںملکوں کے درمیان دیوار فاصل کے ایک طرف اسرائیلی فوج اور دوسری طرف حزب اللہ ہے اور دونوں غیراعلانیہ حالت جنگ میں ہیں۔
سمندری علاقے کے حوالے سے گذشتہ برس ہونے والے مذاکرات میں کوئی قابل ذکر پیش رفت اور کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اسرائیل نے لبنان کی بحری حدود کی تبدیلی کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔
لبنانی وفد کی طرف سے پیش کردہ نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاریش گیس فیلڈ کا نصف حصہ لبنان کو دیا گیا ہےتاہم اگر اسرائیل اس علاقےگیس کی تلاش کے لیے کھدائی شروع کرتا ہے تو اسرائیل کا پیچھے ہٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل نے جو نقشے پیش کیے ہیں اس میں اسرائیلی سمندری حصے کو بلاک 72 سے بلاک 9 کی طرف وسعت دی گئی ہے۔ ماہرین نے اسرائیل کے اس اقدام کو ایک نئی پیش قدمی اور زیادتی قرار دیا ہے۔
لبنان نے سنہ 2007ءمیں سمندر میں گیس کی تلاش کے لیے کھدائی شروع کی تاہم لبنان نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے کلب میں شامل ہونے کا سنہری موقع کھو دیا۔
حزب اللہ اور دوسری فلسطینی قوتوں کی طرف سے خشکی کے راستے اسمگلنگ نے لبنان کےمعاشی بحران اور مالی خسارے میں بے پناہ اضافہ کیا۔