عراق میں گذشتہ کچھ عرصےسے امریکی تنصیبات پرحملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ عراق کے صوبہ کردستان کے علاقے اربیل میں چند روز قبل بین الاقوائی اڈے پر راکٹ حملے اور سوموار کو بغداد کے گرین زون میں امریکی سفارت خانے پر راکٹوں سے حملے کے بعد اگرچہ امریکا ان حملوں پر براہ راست ایران کو قصور وار نہیں ٹھہرایا مگر یہ واضح ہے کہ ان حملوں کے پیچھے ایران نواز قوتوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ عراق میں امریکی تنصیبات پر حملوں میں استعمال ہونے والے راکٹ ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاوں کی طرف سے چلائے گئے ہیں۔ مقامی سطح پر ان گروپوں کو'کاتیوشا سیل' کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ راکٹ ایران سے عراق لائے جاتے ہیں۔
دوسری طرف امریکی صدر جوبائیڈن نے عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی کے ساتھ ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے راکٹ حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی پر زور دیا ہے۔
بدھ کے روز وائٹ ہاوس کے ایک ذریعے نے بتایا کہ جوبائیڈن اور الکاظمی نے ٹیلیفون پر بات چیت میں عراق میں اتحادی فوج پر ہونے والے راکٹ حملوں پر تبادلہ خیال کیا۔
ایک عراقی ذمہ دار نے بتایا کہ آئے روز فوجی اڈوں، دفاتر اور سفارت خانوں پر ہونے والے راکٹ حملے دراصل عراقی حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ عراق کے سیکیورٹی ادارے جلد ایسے عناصر کو بے نقاب کرکے عوام کے سامنے لائیں گے۔
عراقی عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کو کسی تیسری طاقت کے لیے میدان جنگ نہیں بننے دیا جائے گا۔ ادھر عراقی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں بھی راکٹ حملوں میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات دیے گئے ہیں۔ وزیراعظم مصظفیٰ الکاظمی کا کہنا ہے کہ وہ غیرملکی سفارت خانوں اور اتحادی فوج پرحملے کرنے والوں سے کوئی نرمی نہیں برتیں گے۔
عراق میں گرین زون میں ایک ذریعے نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ امریکی سفارت خانے میںموجود فضائی دفاعی نظام راکٹ حملے کو نہیں روک سکا کیونکہ یہ راکٹ سفارت خانے کی عمارت کی سمت میں نہیں تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ ایک راکٹ امریکی سفارت خانے کے قریب عراق کی نیشنل سیکیورٹی ہیڈ کواٹر کی عمارت پر لگ جس کے نتیجے میں وہاں پر کھڑی متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے عراق کے صوبہ کردستان کے دارالحکومت اربیل میں ہوائی اڈے کے فوجی کمپلیکس پر 12 راکٹ داغے گئے۔ اس ہوائی اڈے پر امریکی اتحادی فوجی تعینات ہیں۔