ایران کے جنوب مشرقی صوبے بلوچستان کے متعدد شہروں میں عوامی احتجاج اور غم و غصّے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس احتجاج کی بنیاد چند روز قبل مذکورہ علاقے میں ایندھن بیچنے والے کئی افراد اور اسمگلروں کی ہلاکت ہے۔
احتجاج تحریک پر روک لگانے کے واسطے ایرانی حکام نے علاقے میں انٹرنیٹ کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔
انٹرنیٹ کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے ایک نیٹ ورک "نیٹ بلاکس" نے آج اتوار کے روز بتایا کہ بلوچستان صوبے میں کے شہروں میں عوامی احتجاج کے بعد ایران میں انٹرنیٹ کی سروس میں بڑے پیمانے پر تعطل دیکھا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ سروس میں رکاوٹ اور منقطع ہونے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
یاد رہے کہ علاقے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی فائرنگ سے تقریبا 10 افراد کی ہلاکت کے بعد 23 فروری سے وسیع پیمانے پر احتجاجی لہر بھڑک اٹھی۔
بعد ازاں بلوچستان میں سراوان شہر کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی عمارت کے سامنے بھی لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا پر گردش میں آئی وڈیو ریکارڈنگز میں غصے میں بپھرے احتجاجیوں کو عمارت پر دھاوا بولتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایرانی حکام پڑوسی ممالک تک پھیلی ہوئی ایندھن کی اسمگلنگ کی کارروائیاں روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بالخصوص ایران کے علاقے سیستان اور بلوچستان میں جہاں غربت کافی زیادہ ہے۔ یہاں طویل عرصے سے سیکورٹی فورسز اور سرحد پار ایندھن منتقل کرنے والے غریب افراد کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ ایرانی حکام علاقے میں احتجاج میں توسیع سے خوف کھا رہ ہیں بالخصوص جب کہ صوبے کی آبادی میں ہزاروں افراد ابتر معاشی اور اقتصادی حالات سے دوچار ہیں۔