سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے منگل کی شب سعودی ٹی وی پر نشر ہونے والے طویل انٹرویو میں مملکت میں ریئل اسٹیٹ سے متعلق 47 برس پرانے ایک خیال کو سراہا ہے۔ یہ تجویز شہزادہ مساعد بن عبدالرحمن نے پیش کی تھی۔
شہزادہ محمد نے "روشن" ریئل اسٹیٹ کمپنی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا "یہ خیال نیا نہیں ہے۔ یہ شاہ فیصل کے زمانے میں اور شاہ خالد کے دور کے آغاز میں محترم شہزادہ مساعد بن عبدالرحمن کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا۔ البتہ بعض وزراء اور ذمے دارن نے اس خیال کی مخالفت کی کہ نجی سیکٹر کے لیے اس میدان کے دروازے کھول دیے جائیں۔ لہذا یہ تجویز مسترد کر دی گئی۔ اگر اُس وقت اِس تجویز پر عمل ہو جاتا تو ہمارے پاس دنیا میں ریئل اسٹیٹ کی سب سے بڑی کمپنیاں ہوتیں ... بہرکیف دیر آید درست آید"۔
شہزادہ مساعد بن عبدالرحمن مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن کے ایک بھائی تھے۔ وہ 1920ء میں ریاض میں پیدا ہوئے اور 1987ء میں 67 برس کی عمر میں سعودی دارالحکومت میں انتقال کر گئے۔
مملکت کے دوسرے فرماں روا شاہ سعود بن عبدالعزیز نے 1376ہجری میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے شہزادہ مساعد بن عبدالرحمن کو "دیوان المظالم" (Grievance Board) اور جنرل آڈٹ بیورو کا پہلا سربراہ مقرر کیا تھا۔ بعد ازاں شاہ فیصل کے دور میں انہوں نے وزارت داخلہ اور وزارت خزانہ کے قلم دان بھی سنبھالے۔
شہزادہ مساعد اُس زمانے میں شاہ عبدالعزیز کے واحد بھائی شمار ہوتے تھے جنہوں نے یونیورسٹی ڈگری حاصل کی۔

شہزادہ مساعد بن عبدالرحمن پہلے شخص تھے جنہوں نے 1944ء میں ریاض میں ایک پبلک لائبریری قائم کی۔ اس وقت ان کی عمر چوبیس برس تھی۔ شہزادہ مساعد نے اپنے گھر میں لائبریری کے لیے ایک جگہ مختص کی۔ انہوں نے وہاں کتابوں کا ایک مجموعہ اکٹھا کیا اور عام لوگوں کو مستفید ہونے کے لیے وہاں آنے کی اجازت بھی دی۔
شہزادہ مساعد اپنی اس لائبریری میں طالب علموں کا استقبال کرتے اور ان کے ساتھ علمی مباحثے میں شریک ہوتے۔ بعد ازاں انہوں نے اس لائبریری کو ترقی دے کر ریاض شہر میں ایک دوسری جگہ منتقل کر دیا۔