سعودی عرب اور پاکستان کے تاریخی تعلقات ، متبادل تجارت کا حجم 12 ارب ریال

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے سعودی عرب کے حالیہ دورے میں 'سعودی پاکستانی اعلی رابطہ کونسل' کے قیام کے سمجھوتے کے علاوہ متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔

ان سمجھوتوں میں آزادی سلب کرنے والی سزائیں پانے والے قیدیوں کے اور انسداد جرائم کے شعبوں میں تعاون سے متعلق معاہدے شامل ہیں۔ ان پر سعودی عرب کی جانب سے وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزيز بن سعود بن نائف بن عبدالعزیز اور ان کے پاکستانی ہم منصب شیخ رشید احمد نے دستخط کیے۔ علاوہ ازیں منشیات، نشہ آورادویہ اور کیمیکل کی غیرقانونی حمل ونقل (ٹریفک) کے خاتمے کے سمجھوتے اور سعودی محکمہ مالیات (ایس ایف ڈی) اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان توانائی ، پن بجلی کی پیداوار ، انفرا اسٹرکچر ، ٹرانسپورٹ ، مواصلات اور آبی وسائل کی ترقی کے منصوبوں کے لیے مالی وسائل مہیا کرنے کی غرض سے فریم ورک مفاہمت کی یاد داشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔

Advertisement

اس سلسلے میں سعودی کالم نگار اور اقتصادی تجزیہ کار عبدالرحمن احمد الجبيري نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "دونوں ملکوں کے بیچ اقتصادی تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں۔ ان تعلقات کو دونوں ملکوں کے بیچ تجارتی تبادلے میں ترقی کے لیے مشترکہ دل چسپی حاصل رہی اور اس پر مسلسل کام ہوتا رہا۔ سال 2017ء میں تجارتی تبادلے کا حجم 12 ارب ریال رہا۔ اس دوران میں پاکستان جانے والی برآمدات میں معدنی مصنوعات اور مختلف کیمیائی مصنوعات اہم رہیں جب کہ پاکستان سے درآمد شدہ اشیاء میں اجناس، ملبوسات، گوشت، چائے، کافی اور مصالحہ جات نمایاں رہے۔

الجبیری کے مطابق اخباری رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سعودی عر میں تقریبا 400 پاکستانی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران میں ان کمپنیوں کے بنیادی سرمائے کا حجم 35 کروڑ ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ کمپنیاں مملکت میں تعمیرات، سول انجینئرنگ، کیمیائی مواد، معدنیات اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے سیکٹروں میں کام کر رہی ہیں۔ دوسری جانب گذشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا مجموعی حجم ایک ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ یہ سرمایہ کاری توانائی، پٹرولیم، کیمیکلز، مالی اداروں، بینکنگ، زراعت، انفارمیشن ٹکنالوجی، ڈیری مصنوعات اور انسانی وسائل کی ترقی کے سیکٹروں میں کی گئی۔ علاوہ ازیں سعودی ویژن 2030ء کے اہداف مختلف شعبوں بالخصوص معیشت اور سیاحت میں پاکستان کے ساتھ تعاون مضبوط بنانے کے حوالے سے مطابقت رکھتے ہیں"۔

سعودی تجزیہ کار کے مطابق مملکت ترقیاتی امداد اور مختلف سیکٹروں اور انفرا اسٹرکچر کے لیے کئی ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ اور ان پر عمل درامد کے ذریعے پاکستان کے روشن اور تاب ناک مستقبل میں تعاون کا خواہاں ہے۔

الجبیری کا کہنا ہے کہ کرونا کی وبا کے منفی اثرات کے باوجود 2020ء کے دوران میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم 2.322 ارب ڈالر رہا۔ سعودی عرب اب بھی پاکستان کو برآمدات بھیجنے والے چار بڑے ممالک میں سے ہے۔ ان برآمدات میں تیل کی مصنوعات، پلاسٹک اور کیمیکلز وغیرہ اہم ترین ہیں۔ گذشتہ سال (2020ء میں) پاکستان سے درآمدات حاصل کرنے والے ممالک میں سعودی عرب کا 12 واں نمبر رہا۔ ان درآمدات میں اجناس (چاول)، گوشت، مصالحہ جات اور ٹیکسٹائل نمایاں ترین ہیں۔

تاریخی تعلقات

یاد رہے ک ہدونوں جانب کے بیچ تعلقات کا سلسلہ پاکستان کے قیام سے سات برس قبل اپریل 1940ء سے شروع ہوا۔ پاکستان کے قیام کے بعد ان تعلقات میں تعاون اور دوستی کے نئے اُفق روشن ہوئے۔ پاکستان اسلامی ممالک میں سعودی عرب کے قریب ترین حلیفوں میں سے ہے۔ سعودی عرب ان اولین ممالک میں سے ہے جنہوں نے پاکستان کی خود مختاری اور اس کی سرحدوں کو تسلیم کیا۔ دونوں ممالک اسلامی تعاون تنظیم کے دو بنیادی اور اہم ارکان میں سے ہیں۔

گذشتہ سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے سعودی عرب اور پاکستان کی قیادت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ تعلقات مختلف شعبوں میں "تزویراتی شراکت داری" کی سطح تک ترقی پا چکے ہیں۔

سال 2018ء میں پارلیمانی انتخابات میں کامابیابی کے بعد بطور وزیر اعظم عمران خان نے پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔ سال 2019ء میں وہ چار مرتبہ مملکت کے دورے پر گئے۔

مقبول خبریں اہم خبریں