گوگل میپ میں غزہ کی تصاویر دھندلی کیوں نظر آ رہی ہیں ؟

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

گذشتہ ہفتے پیر کے دن سے غزہ کی پٹی ذرائع ابلاغ اور سیاست کے منظر ناموں میں سرفہرست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں اسرائیلی فوجی آپریشن اور بم باری کا سلسلہ ایک ہفتے سے جاری ہے جس میں اب تک 200 سے زیادہ فلسطینی شہید اور 1200 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ محققین کو گوگل میپ کی سروس کے ذریعے تباہی کی تصدیق اور حملوں کے ٹھکانوں کا تعین کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس صورت حال نے متعدد سوالات کو جنم دیا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ دھندلاہٹ کے سبب اسرائیل اور فلسطینی اراضی کی اعلی کوالٹی سیٹلائٹ تصاویر حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے ،،، اس کے مقابل دنیا بھر میں دیگر جگہائیں واضح طور پر ظاہر ہو رہے ہیں۔ یہ بات برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔

رپورٹ کے مطابق تنازعات کے جائزے اور نگرانی کے سلسلے میں سیٹلائٹ تصاویر کا استعمال انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ اس لیے کہ محققین ان ہی کے ذریعے غزہ اور اسرائیل میں راکٹ داغے جانے کے مقامات اور نشانہ بنائی گئی عمارتوں کی تصدیق کرتے ہیں۔

تحقیقی صحافت سے متعلق ویب سائٹ"Bellingcat" پر ایک صحافی ایرک ٹولر کا کہنا ہے کہ "گوگل ارتھ" پروگرام میں غزہ کی تازہ ترین تصاویر 2016ء کی ہیں لہذا ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ صحافی کے مطابق غزہ کے مقابلے میں شام میں دیہی علاقوں کی بعض تصاویر کو بڑا کر کے دیکھا گیا تو وہ بہت واضح اور اعلی کوالٹی (ہائی ریزولوشن) کی حامل ہیں۔

دوسری جانب گوگل کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد گنجان آباد علاقوں کی لی گئی تصاویر کی باقاعدگی کے ساتھ تجدید کرنا ہے۔ تاہم کمپنی نے نقشوں کے دھندلے پن کے حوالے سے کوئی اطمینان بخش جواب پیش نہیں کیا۔

گوگل ارتھ اور ایپل میپس جیسے نقشوں کے پلیٹ فارم دنیا بھر کے مختلف مقامات کی تصاویر کے حصول کے لیے سیٹلائٹس کی مالک کمپنیوں پر انحصار کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں (Maxar) اور (Planet Labs) سب سے بڑی تجربہ گاہوں میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ دونوں اس وقت اسرائیل اور غزہ کی اعلی کوالٹی تصاویر فراہم کر رہی ہیں۔

علاوہ ازیں محققین اور صحافی جو بڑی حد تک "اوپن سورس" انفارمیشن اور تصاویر کا سہارا لیتے ہیں ،،، وہ نقشوں کے بلا معاوضہ پروگراموں اور خدمت پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر اوقات اعلی کوالٹی کی تصاویر تک براہ راست نہیں پہنچ پاتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا نے 1997ء کی Kyl-Bingaman (KBA) ترمیم کے تحت گذشتہ برس تک ان سیٹلائٹ تصاویر کی کوالٹی پر قیود لاگو رکھی تھیں جن تصاویر کو امریکی کمپنیاں تجارتی بنیادوں پر پیش کرنے کی اجازت رکھتی ہیں۔ یہ اقدام اسرائیل کے سیکورٹی خدشات کے حل کے واسطے کیا گیا تھا۔ مذکورہ امریکی قانون میں اسرائیل کے سوا کسی جگہ کا نام نہیں تھا تاہم اس کو فلسطینی اراضی پر بھی نافذ کر دیا گیا۔ امریکا کو ان قیود کو ختم کرنے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا رہا۔ آخرکار جولائی 2020ء میں یہ قانون ختم کر دیا گیا۔

مقبول خبریں اہم خبریں