اسرائیل: نئے حکومتی اتحاد میں شامل عرب سیاسی جماعت کے سربراہ منصور عباس کون ہیں؟

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

اسرائیلی اخبار "ہآرٹز" نے اسرائیل میں سرگرم سیاسی جماعت "یونائیٹڈ عرب لِسٹ" کے سربراہ منصور عباس کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں ان وجوہات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن کے سبب منصور عباس نئی اسرائیلی حکومت میں شامل ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ منصور عباس "قرآن کریم کا حوالہ بھی بالکل اسی طرح دیتے ہیں جس طرح وہ سوئٹزرلینڈ کے آئین کا اقتباس پیش کرتے ہیں"۔ ہم جنس پرستوں کے خلاف ان کی مہم واضح تھی تاہم بند کمروں میں وہ ان کے بارے میں مختلف زبان استعمال کرتے ہیں۔

اخبار کے مطابق 1990ء کی دہائی میں بیت المقدس میں "Hebrew University" میں سرگرم "عرب طلبہ کمیٹی" کو نوجوانوں کے انقلاب کے لیے زرخیز زمین شمار کیا جاتا تھا۔ تاہم منصور عباس ان طلبہ میں شامل نہ تھے۔ اخبار نے مزید بتایا ہے کہ اس زمانے میں عباس اسلامک موومنٹ کے رکن اور دانتوں کی طب کے شعبے میں زیر تعلیم تھے۔ وہ دوسری طرح کے انقلابی تھے۔ ان کے گرد موجود بعض طلبہ مذہب کے پابند تھے ، بعض طلبہ سیاسی وابستگی نہیں رکھتے تھے اور دیگر طلبہ سوشلسٹ فرنٹ پارٹی سے مایوس ہو چکے تھے۔ ان لوگوں نے ایک نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے مظاہروں کا راستہ اپنانے کے بجائے حقوق حاصل کرنے کے واسطے یونیورسٹی کی انتظامیہ سے براہ راست مذاکرات کو ترجیح دی۔ آخر کار منصور عباس کو طلبہ کمیٹی کا سربراہ منتخب کر لیا گیا۔

سال 1998ء میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بیت المقدس میں مذکورہ یونیورسٹی کے کیمپس کا دورہ کیا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے ایک سینئر ذمے دار نے منصور عباس کا (جن کی عمر اس وقت 23 برس تھی) تعارف یہ کہہ کر کرایا کہ "ایک روز آپ ان سے پارلیمنٹ (کنیسٹ) میں ملاقات کریں گے"۔

دو دہائیوں بعد واقعتا یہ ملاقات اسرائیلی پارلیمنٹ میں ہو گئی۔ منصور عباس "یونائیٹڈ عرب لِسٹ" پارٹی کی طرف سے پہلی مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ اس کے تین برس بعد منصور عباس نے بنیامین نیتن یاہو کے زیر قیادت لیکوڈ پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا اور ایک ہی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ بعد ازاں انہوں نے موجودہ حکمراں اتحاد میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب کوئی عرب سیاسی جماعت اسرائیل میں حکومت میں شامل ہوئی ہے۔

اسرائیلی اخبار کے مطابق منصور عباس نے منفرد حکمت عملی کے ذریعے صرف 47 برس کی عمر میں یہ کامیابی حاصل کر لی۔ ان کی دانش مند اور مہذب شخصیت سیاسی تصفیوں اور اتحادوں میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ منصور عباس بہت حساس طبیعت کے مالک ہیں اور جلد آبدیدہ ہو جاتے ہیں تاہم ساتھ ہی وہ اپنے حریف کے خلاف ایک ماہر چال چلنے والے بھی شمار ہوتے ہیں۔

ہآریٹز اخبار کے مطابق منصور عباس شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔ وہ الجلیل میں طبریا جھیل کے شمال مغرب میں واقع قصبے المغار میں پروان چڑھے۔ اس قصبے میں مسلم اور مسیحی دونوں سکونت پذیر ہیں۔

منصور کے والد ایک ایک چھوٹی پرچون کی دکان چلایا کرتے تھے۔ قصبے میں ترقیاتی پیش رفت نہیں تھی لہذا پانی کی قلت اور بجلی کی فراہمی منقطع ہو جانا منصور اور ان کے آٹھ بھائیوں کے لیے کوئی عجیب سی بات نہ تھی۔

عباس ایک ہونہار طالب علم تھے اور 17 برس کی عمر میں انہوں نے مقامی مسجد میں جمعے کا خطبہ اور بیان دینا بھی شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنی تقاریر میں شیخ عبداللہ نمر درویش سے متاثر نظر آتھے تھے۔ شیخ کے کہنے پر ہی منصور عباس نے دانتوں کی طب کا شعبہ اختیار کیا تھا۔

بعد ازاں Hebrew University میں پہنچ کر عباس سیاسی سرگرمیوں کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس دوران میں شیخ درویش کے ساتھ ان کا تعلق مضبوط ہوتا چلا گیا۔ بعد ازاں عباس نے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں مغربی کنارے میں فلسطینی رہ نما شخصیات مروان البرغوثی، فیصلی الحسینی اور حنان عشراوی کے علاوہ عزمی بشارہ کو بھی دعوت دی۔ منصور نے بشارہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنایا۔ وقت کے ساتھ ساتھ عباس نے سیاسی میدان سے باہر خود کو "صلح کرانے" والے کے طور پر بھی پیش کیا۔

دانتوں کی طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد منصور نے کچھ عرصہ اس پیشے کو اپنایا۔ تاہم اس دوران میں بھی ان کی تمام قوت اسلامی موومنٹ پارٹی کی سرگرمیوں کے لیے وقف رہی۔

عباس کی قریبی ایک شخصیت کے مطابق وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جو کبھی خود سے مطالبہ نہیں کرتے ہیں اور ہمیشہ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک اور شخصیت کا کہنا ہے کہ "عباس کے بارے میں آخری وقت تک کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ آج وہ آپ کے ساتھ ہیں تو آخری لمحے میں ان کا رخ کسی اور کی طرف بھی مڑ سکتا ہے کیوں کہ دوسرے شخص نے انہیں آپ سے کچھ زیادہ کی پیش کش کی ہو گی"۔

صحافی محمد مجادلی کہتے ہیں کہ منصور عباس معاہدوں اور سمجھوتوں کے انجینئر ہیں۔ پارلیمنٹ میں حکومت میں ان کی شمولیت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تاہم اس شرکت کے نتیجے میں انہوں نے اپنے بہت سے دشمن بھی پیدا کر لیے ہیں۔

دسمبر 2020ء میں "جوائنٹ لسٹ" پارٹی کے ایمن عودہ اپنی جماعت میں انقسام کو روکنے کی آخری کوششوں میں مصروف تھے۔ اس موقع پر منصور عباس نے اعلان کر دیا کہ وہ پارلیمنٹ کی تحلیل کی رائے شماری میں شریک نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد عباس کی "یونائیٹڈ عرب لِسٹ" اور نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے درمیان اتحاد کو سب ہی جانتے ہیں۔ اس طرح عباس خود مختاری کے راستے پر چل پڑے۔

اس بنیاد پر عباس نے اپنے سابقہ معاونین جو ان کی جماعت سے پارلیمنٹ کے ارکان تھے، ان کی ساکھ خراب کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم کا آغاز کیا جس کی کوئی حدود نہیں تھی۔ اس شرپسند مہم کا ماسٹر مائنڈ ایک ہی شخص تھا جس کا نام ایاد کیال تھا۔ وہ منصور عباس کا تزویراتی مشیر تھا۔ درحقیقت یہ ایاد کی ہی حکمت عملی تھی جس نے عباس کو حکومتی تشکیل کی کنجیاں دے دیں۔ انتخابات والی رات عباس نے اپنے خطاب میں ایاد کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ایاد کو دنیا کا بہترین تزویراتی مشیر قرار دیا۔

اخبار کے مطابق منصور عباس کے مختلف طریقہ کار نے انہیں ایک چال میں پھنسا دیا ہے۔ ایک طرف صہیونیوں کی اکثریت قبول کرنے کے لیے ان کی کوششیں متنازع قرار پا رہی ہیں تو دوسری جانب قومی دائرہ کار میں عرب سیاست دانوں کی جانب سے وضع کردہ معیارات کی روشنی میں عباس ناصر دہشت گردی کو سپورٹ کرنے والے بن جاتے ہیں۔

اسرائیلی اخبار ہآرٹز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے ک منصور عباس پیاز کاٹے بغیر بھی رو سکتے ہیں۔ شیخ عبداللہ درویش کے جنازے میں بھی وہ کئی مرتبہ رو پڑے تھے۔

مقبول خبریں اہم خبریں