ایران کے جوہری پروگرام کے خطرے کے بارے میں بین الاقوامی انتباہ کے باوجود تہران اس کے برعکس دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایرانی صدر کے معاون خصوصی اور جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے باور کرایا ہے کہ تہران نے جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے یورپ کے فعال نہ ہونے کے نتیجے میں اپنا کردار الٹ دیا۔
ایرانی عہدیدار نے تہران میں آسٹریا کے سفیر وولف ڈیٹرچ ہیم کے ساتھ بدھ کو ہونے والی بات چیت کے دوران عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ یورپی ممالک اور امریکا پر زور دے کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں اپنے وعدوں پر عمل کریں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران مذاکرات کے لیے سنجیدہ اور پرعزم ہے بشرطیکہ تمام فریق اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے واپس آجائیں۔
بین الاقوامی انتباہ اور مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی دعوت
ایرانی عہدیدار کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب برطانوی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پہلے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ پریشان کن ہے۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کے امور کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جیمز کلیفرلی نے منگل کو مزید کہا تھا کہ ایران دو سال سے زیادہ عرصے سے جوہری معاہدے پر عمل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تہران اپنی صلاحیتوں کو مستقل اور ناقابل واپسی انداز میں مستحکم کرتا رہتا ہے۔
یورپی یونین نے ایران پر زور دیا کہ وہ بڑی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے ایٹمی معاہدے کو بچانے کے لیے ویانا میں تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات کو دوبارہ شروع کرے۔
واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ جلد از جلد معاہدے پر واپس آنے کے لیے مذاکرات شروع کرے۔
سنہ 2015ءکا جوہری معاہدہ
یاد رہے کہ تہران اور 5+1 گروپ (یورپی یونین کے علاوہ چین ، امریکا ، فرانس ، برطانیہ ، روس اور جرمنی) کے درمیان 2015 میں ویانا میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ یہ معاہدہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے بدلے میں تہران پر عاید بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کے لیے کیا گیا۔ اس معاہدے میں ایران نے ضمانت دی تھی کہ وہ ایٹم بم نہیں بنائے گا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں 2018 میں امریکا نے یک طرفہ طور پر معاہدے سےعلاحدگی اختیار کرلی تھی اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ اس کےبعد کہا جاتا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ترک کردی تھیں اور جوہری پروگرام کو فوجی مقاصد کے تحت آگے بڑھانا شروع کردیا تھا۔
موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے معاہدے پر واپس آنے کے لیے تیاری شروع کی ہے اور اس حوالے سے رواں سال ویانا میں مذاکرات بھی ہوئے مگر ایران میں صدارتی الیکشن کے بعد ویانا بات چیت تعطل کا شکار ہے۔