فوجی عدالت بیروت میں تشدد پرسب سے پہلے حسن نصراللہ سے پوچھ تاچھ کرے:سمیرجعجع
عیسائی لبنانی فورسزپارٹی توحزب اللہ کے برعکس وزارتِ داخلہ میں رجسٹرڈ ہے،اس نے کوئی خلاف ورزی نہیں کی
لبنان کی عیسائی فورسز پارٹی کے رہنما سمیرجعجع نے کہا ہے کہ ’’فوجی عدالت کو بیروت میں گذشتہ ہفتے رونما ہونے والے تشدد کے واقعات پرسب سے پہلے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سے پوچھ تاچھ کرنی چاہیے اور اس کے بعد وہ میرا بیان قلم بند کرے۔‘‘
اس سے قبل جمعرات کو ایک عدالتی اہلکار نے بتایا تھا کہ گذشتہ ہفتے حزب اللہ اوراس کی اتحادی امل تحریک کی جانب سے بیروت کی بندرگاہ پردھماکے کی تحقیقات کرنے والے جج طارق بیطارکے خلاف احتجاجی ریلی کے دوران تشدد کے واقعات پر پوچھ گچھ کے لیے سمیرجعجع کو فوجی عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق ایک عدالتی عہدہ دار نے بتایا کہ فوجی عدالت کے نمائندے فادی عقیقی نے ’’فوج کی انٹیلی جنس کو ہدایت کی تھی کہ وہ سمیرجعجع کو طلب کرے اوران کی جماعت لبنانی فورسز کے گرفتارارکان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ان کا بیان قلم بند کرے۔‘‘
سمیرجعجع نے اس کے ردعمل میں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ’’اگر فوجی عدالت ان سے پوچھ تاچھ کرنا چاہتی ہے تو وہ بہ خوشی اس شرط پر بیان دیں گے کہ وہ ان سے پہلے حسن نصراللہ کی بات سنے، ان کا بیان ریکارڈ کرے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ لبنانی فورسز نے نوّے کے عشرے میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔انھوں نے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ ان کی جماعت حزب اللہ کے برعکس وزارت داخلہ میں رجسٹرڈ ہے۔
لبنان کی مختلف جماعتوں کے درمیان اگست 2020 میں بیروت کی بندرگاہ پرتباہ کن دھماکے کی تحقیقات پرکشیدگی پائی جارہی ہے۔گذشتہ ہفتے دارالحکومت کی سڑکوں پرایک مرتبہ پھرتشدد کی آگ بھڑک اٹھی تھی اور آتشیں ہتھیاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں سات شیعہ ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد بیروت کی سڑکوں تشدد کا بدترین واقعہ تھا۔
ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ ملیشیا نے سمیرجعجع کے زیر قیادت عیسائی لبنانی فورسز کو تشدد کے اس واقعے کا ذمے دار ٹھہرایا ہے جبکہ لبنانی فورسز نے اس الزام کی تردید کی ہے اوراس نے الٹا حزب اللہ کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے اپنے حامیوں کو بیروت میں عیسائی آبادی کے محلے عین الرمانہ میں کارروائی کے لیے بھیجا تھا۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے گذشتہ سوموار کو ایک نشری تقریر میں لبنانی مسیحیوں کی جماعت پر ملک میں ایک مرتبہ پھر’’خانہ جنگی‘‘ بھڑکانے کا الزام عاید کیا تھا۔انھوں نےگذشتہ جمعرات کے تشدد آمیز واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگرعدلیہ نے ایسا نہیں کیا تو وہ ازخودکارروائی کریں گے۔
طاقتورشیعہ ملیشیا کے لیڈر نے پہلی مرتبہ یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کے پاس ایک لاکھ مسلح اور تربیت یافتہ جنگجوموجود ہیں۔
سمیرجعجع نے ان کی اس گفتگو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’حسن نصراللہ کی تقریرایک زہرآلود تحفہ تھی۔یہ غلط فہمیوں اورافواہوں سے بھرپور تھی اورکسی سچائی پر مبنی نہیں تھی۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ میں عین الرمانہ میں تشدد کو ایک منحوس واقعہ سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے ہمیں بیروت کے اس مضافاتی علاقے میں بہت سے زخمی اور متاثرین کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’میں یہ تو نہیں جانتا کہ پہلی گولی کس نے چلائی تھی لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ پہلے چار زخمی عین الرمانہ ہی میں گرے تھے اور یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے۔‘‘