ویانا میں جوہری بات چیت کا ساتواں دور شروع ہونے سے دو ہفتے قبل ایرانی عہدے داران کی جانب سے ایک بار پھر اس شرط کو دہرایا جا رہا ہے کہ جوہری معاہدے سے امریکا کی علاحدگی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے تہران پر عائد کی جانے والی پابندیاں ختم کی جائیں۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینئر مذاکرات کار علی باقری نے جمعرات کی شب CNN ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں آئندہ مذاکرات کے حوالے سے اپنے ملک کے موقف اور شرائط کو دہرایا۔
باقری کے مطابق امریکا کے ساتھ آئندہ مذاکرات میں مرکزی معاملہ "ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیوں" کے اٹھائے جانے کا ہے۔
ایرانی مذاکرات کار کا کہنا تھا کہ پابندیاں اٹھائے جانے کے معاملے پر مذاکرات شروع ہونے سے قبل اتفاق رائے ہو جانا چاہیے !
I sat down with Iran's Deputy FM, Ali Bagheri Kani. I pressed him on whether Iran would get back into compliance with the nuclear deal. He insisted that the main issue in upcoming negotiations with the US is actually removing what he calls "illegal sanctions against Iran." pic.twitter.com/EPTFmLQHLL
— Christiane Amanpour (@camanpour) November 11, 2021
یاد رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے دو روز قبل کہا تھا کہ ان کا ملک جوہری پروگرام کے حوالے سے معاہدے کی بحالی کے مقصد سے بات چیت میں "اچھی مفاہمت" کے لیے تیار ہے۔ وزیر خارجہ کے نزدیک ہر فریق کا اپنی پاسداریوں کی طرف واپس لوٹنا "ایک اہم اور بنیادی ابتدائی قدم" ہے۔
مذاکرات کا نیا دور 29 نومبر کو شروع ہو گا۔
ایرانی نائب وزیر خارجہ اور سینئر مذاکرات کار علی باقری نے منگل کی شب سرکاری ٹی وی کو دیے گئے بیان میں واضح کیا تھا کہ تہران ویانا میں اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے نئے مذاکرات نہیں کرے گا اس لیے کہ اس حوالے سے معاہدہ پانچ برس قبل طے پا چکا ہے۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ بات چیت کا محور ،،، جوہری معاہدے سے یک طرفہ امریکی انخلا اور واشنگٹن کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے دور رس اثرات ہوں گے۔