سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے جمعرات کی شام "منفرد مہارت کے حامل متعدد ممتازافراد" کو سعودی شہریت دینے کی منظوری دے دی۔ سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ منظوری "شاہی حکم" کی روشنی میں سامنے آئی ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ قانون، طب، سائنس، ثقافت، کھیلوں اورتکنیکی شعبوں کے ماہرین کوشہریت دینے کا دروازہ اس طرح کھولا جا سکے کہ وہ مملکت کی ترقی کے پہیّے کو تیز کرنے میں معاون ہو۔
عربی روزنامے الشرق الاوسط نے ان افراد کے ناموں کی فہرست شائع کی ہے جن کو سعودی شہریت دیے جانے کی منظوری دی گئی ہے۔
ڈاکٹر امين سيدو
سیدو کا نام علمی و ادبی تحقیق میں معروف ہے۔ انہوں نے سعودی عرب میں سکونت کے دوران میں ان کی تیس سے زیادہ ثقافتی اور ادبی تحریریں شائع ہو چکی ہیں۔

انہوں نے ببلوگرافی کے مطالعے میں بھی کام کیا۔ سیدو کنگ فہد نیشنل لائبریری کے جریدے کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔
ڈاکٹر محمد البقاعی
البقاعی ایک محقق اور مترجم ہیں۔ انہوں نے متعدد فنون میں تقریبا 40 کتابیں لکھیں۔ ان کی تحقیق کے نمایاں شعبوں میں تاریخی اور تنقیدی مطالعوں کے علاوہ ترجمہ شامل ہے۔

انہوں نے ریاض کی کنگ سعود یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی اداروں میں لغوی مطالعے اور تنقیدی ادب کے استاد کے طور پر فرائض انجام دیے۔ وہ اس وقت شاہ سلمان مرکز برائے تاریخِ جزیرہ عرب میں کام کر رہے ہیں۔ البقاعی نے 2018ء میں شاہ عبدللہ بن عبدالعزیز عالمی ایوارڈ برائے ترجمہ بھی حاصل کیا تھا۔
ڈاکٹر عبد الكريم السمک
معروف مؤرخ ڈاکٹر عبد الكريم ابراهيم السمک نے جدید اور معاصر تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے زندگی کے پچاس برس سعودی عرب میں گزارے۔

السمک نے مملکت کے قیام کے عرصے میں ریاست کے متعدد افراد کے حالات زندگی مرتب کیے۔ بالخصوص وہ افراد جنہوں نے شاہ عبدالعزیز کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔ سعودی ریاست کے بارے میں ان کی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔
سمعان العانی
عراق سے تعلق رکھنے والے تھیٹر ڈائریکٹر سمعان العانی کئی دہائیاں قبل کام کی تلاش میں ہجرت کر کے سعودی عرب آ گئے تھے۔ سمعان نے بغداد میں اسٹیج کے شعبے میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔

سعمان کئی برس تک تھیٹر ڈائریکٹر کے طور پر اعلی معیار کا کام پیش کرتے رہے۔ بعد ازاں وہ ثقافت اور فنون سے متعلق سعودی سوسائٹی کے ساتھ منسلک ہو گئے۔
مختار عالم
مختار عالم بیت اللہ کے غلاف "کسوہ" تیار کرنے والے کارخانے میں بطور خطاط کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے فن پاروں کے ساتھ بین الاقوامی نمائشوں اور عالمی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔

مختار نے خطاطی کے حوالے سے تربیتی کورسوں اور لیکچروں کا بھی اہتمام کیا۔ گذشتہ صدی میں 1990ء کی دہائی کے وسط میں مختار نے دو برس تک ام القری یونیورسٹی کے ڈپلومہ سرٹفکیٹس اور ماسٹرز و ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کی خطاطی کا کام کیا۔ وہ مختلف اداروں کی جانب سے ایوارڈز اور تکریمی سرٹفکیٹس بھی حاصل کر چکے ہیں۔