ایران کے کئی علاقوں میں گذشتہ چند دنوں کے دوران حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی لہر کے دوران ایرنی سکیورٹی ادارووں کے ہاتھوں تشد کے استعمال پر اقوام متحدہ نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ احتجاجی مظاہرے ایک نوجوان خاتون مہاسا امینی کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد شروع ہوئے ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ نے ایران میں ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس کی طرف سے طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔
ایک بیان میں اقوام متحدہ کی قائم مقام ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ندا الناشف نے امینی کی موت اور اس واقعے کے بعد ہونے والے مظاہروں میں حکام کی جانب سے پرتشدد ردعمل کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
اخلاقی پولیس
قابل ذکر ہے کہ امینی جس کا تعلق صوبہ کردستان سے ہے کو 13 ستمبر کو تہران میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جانے کے دوران نام نہاد "اخلاقی پولیس" نے "نامناسب لباس" پہننے کے بہانے گرفتار کیا تھا، لیکن جلد ہی ان کی موت کی خبر آئی۔ اطلاعات کے مطابق امینی کو گرفتار کرنے کے بعد ان پر تشدد کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوگئی۔
اس واقعے نے ملک میں انسانی حقوق کے بہت سے کارکنوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس کی موت کو "مشتبہ" قرار دینے پرمجبور کیا ہے جسے ماورائے عدالت قتل قرار دیا جا رہا ہے۔
دریں اثناء وزیر داخلہ احمد وحیدی نے دعویٰ کیا کہ مہسا بظاہرپہلے سے صحت کے مسائل میں مبتلا تھی۔ جب وہ پانچ سال کی تھی تو اس کے دماغ کی سرجری ہوئی تھی۔
تاہم امینی کے والد نے ان معلومات کی مکمل اور تفصیل سے تردید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کی بیٹی جسمانی طور تندرست تھی۔ اسے کوئی عارضہ نہیں تھا۔