روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف کا کہنا ہے کہ ترکی کے مواقف اور اقدامات واضح اور شفاف ہونا چاہئیں۔ آج بدھ کے روز روسی خبر رساں ایجنسی "اسپٹنک" سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نگورنو کاراباخ ریجن کے تنازع کے حوالے سے ماسکو ترکی کے مواقف سے موافقت نہیں رکھتا ہے۔
لاؤروف نے باور کرایا کہ آرمینیا کے خلاف عسکری کارروائی جس کی ترکی حمایت کر رہا ہے ،،، اس سے وہاں قائم مسئلہ اور تنازع ہر گز حل نہیں ہو گا۔
روسی وزیر خارجہ کے مطابق نگورنو کاراباخ میں فائر بندی کی نگرانی کے لیے امن فوج تعینات کی جانی چاہیے۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان فائر بندی تک پہنچنے کے لیے ماسکو نے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ البتہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر ہفتے کے روز سے نافذ العمل فائر بندی کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
آذربائیجان نے آج بدھ کے روز اعلان کیا کہ اس نے آرمینیا میں میزائل داغے جانے کے ایک مقام پر بم باری کی۔ دوسری جانب آرمینیا نے اپنی سرزمین سے میزائل داغے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آذربائیجان نے اس کی اراضی پر ایک فوجی دستے کو نشانہ بنایا ہے۔
یہ اعلانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب کہ نگورنو کاراباخ ریجن کا کہنا ہے کہ اس کے شہر مارتاکرت پر توپ سے گولہ باری کی گئی ہے۔ اس سے قبل آذربائیجان کی وزارت دفاع نے بتایا تھا کہ آذربائیجان کی فوج نے آج صبح شدید بم باری کے ذریعے ایک بار پھر انسانی بنیادوں پر نافذ العمل ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔
دوسری جانب آذربائیجان کے صدر کے معاون نے ٹویٹر پر کہا ہے کہ "آرمینیا کی جانب سے جنگ بندی کی پابندی واضح طور پر منافقت ہے ... آج صبح سے تارتار شہر کو توپوں سے شدید گولہ باری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے"۔
واضح رہے کہ 27 ستمبر کو شروع ہونے والی لڑائی 1991ء سے 1994ء کے درمیان نگورنو کاراباخ ریجن کے حوالے سے ہونے والی جنگ کے بعد بدترین معرکہ آرائی ہے۔ مذکورہ جنگ کے نتیجے میں تقریبا 30 ہزار افراد مارے گئے تھے۔
بیرونی دنیا کی جانب سے اس تنازع پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ لڑائی ان پائپ لائنوں کے قریب ہو رہی ہے جن کے ذریعے آذربائیجان سے تیل اور گیس یورپی ممالک کو منتقل کی جاتی ہے بلکہ اس بات کے بھی اندیشے ہیں کہ روس اور ترکی اس تنازع میں شریک نہ ہو جائیں۔
روس کا آرمینیا کے ساتھ دفاع کا معاہدہ موجود ہے اور ترکی آذربائیجان کا ایک قریبی حلیف ہے۔