کراچی میں کیپٹن صفدرکی گرفتاری اور پولیس پر’غیرمرئی‘ دباؤ؛آرمی چیف کا تحقیقات کا حکم
پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ’’کراچی واقعہ‘‘ کا نوٹس لے لیا ہے اور اس کی فوری تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے کورکمانڈر کراچی کو حقائق کے تعیّن کے لیے رونما ہونے والے واقعے کی فوری تحقیقات اور اس کی جلد سے جلد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
لیکن آئی ایس پی آر نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کا اشارہ کس واقعے کی جانب ہے۔اس کے بیان سے چندے قبل ہی حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے منگل کی شام ایک نیوزکانفرنس میں ’’اداروں‘‘ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ کراچی میں ایک روز قبل پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیڈر ریٹائرڈ کپتان محمد صفدر کی گرفتاری کے واقعے کی تحقیقات کریں۔
پی پی پی نے اپنے سرکاری ٹویٹراکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں اطلاع دی ہے کہ جنرل باجوہ نے بلاول بھٹو زرداری سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ہے اور ان سے کراچی میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
بیان کے مطابق ’’ پی پی پی کے چئیرمین نے کراچی واقعہ کا فوری نوٹس لینے پر چیف آف آرمی اسٹاف کو سراہا ہے اور انھیں اس کی شفاف اور منصفانہ تحقیقات میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘‘
KARACHI, October 20: Chief of Army Staff (COAS) General Qamar Javed Bajwa called the Chairman Pakistan Peoples Party @BBhuttoZardari over the telephone to discuss the Karachi incident this evening.
— PPP (@MediaCellPPP) October 20, 2020
کیپٹن صفدر اور ان کی اہلیہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز شریف نے اتوار کی شب پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) کی کراچی میں منعقدہ ریلی میں شرکت کی تھی۔اس کے بعد وہ اپنے ہوٹل میں آگئے تھے جہاں سے کیپٹن صفدر کو سوموار کوعلی الصباح گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ان پر بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے تقدس کو پامال کرنے کا الزام عاید کیا گیا تھا۔انھیں گذشتہ روز ہی ایک عدالت کے حکم پر ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔انھوں نے مزار قائد پر نعرے بازی کی تھی۔اس پرمبیّنہ طور پر ان کی گرفتاری بعض ’’غیرمرئی‘‘قوتوں کی مداخلت کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی اور ان ہی کی مداخلت سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماد کے خلاف کراچی کے ایک پولیس تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں نیوزکانفرنس میں گرفتاری کے اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے بہ قول سندھ پولیس کے تمام اعلیٰ افسر حیران وپریشان ہیں کہ کن لوگوں نے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) کے گھر کے گھیراؤ کیا تھا اور انھیں کسی نامعلوم مقام پر لے گئے تھے۔ پھراس کے بعد کیپٹن صفدر کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔
انھوں نے ان دو افراد کی شناخت ظاہر کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جو سوموار کو علی الصباح آئی جی کے گھر میں گھس گئے تھے اور چار بجے کے قریب وہاں سے صوبائی پولیس سربراہ کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
قبل ازیں پی ایم ایل این کے لیڈر اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا ایک صوتی پیغام بھی سوشل میڈیا کے ذریعے منظرعام پر آیا تھا۔اس میں انھیں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ آئی جی کو اغوا کے بعد مریم نواز ، کیپٹن صفدر اور دو سو دیگر افراد کے خلاف مزار قائد کا تقدس پامال کرنے کے الزام میں ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔انھوں نے الزام عاید کیا تھا کہ آئی جی کو رینجرز نے اغوا کیا تھا۔
پی پی پی کے چئیرمین نے اس تمام واقعے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ سندھ حکومت اس کی مکمل تحقیقات کرے گی۔انھوں نے کہا کہ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسر اپنی بے توقیری پر مستعفی ہورہے ہیں یا چھٹیوں پر جارہے ہیں اور وہ اپنے پیشہ ورانہ سرکاری فرائض انجام دینے کو تیار نہیں۔
واضح رہے کہ سندھ پولیس کے سربراہ کو مبیّنہ طور پر دباؤ میں لانے کے واقعے کے ردعمل میں صوبے کے تیرہ اعلیٰ پولیس افسروں نے دو، دو ماہ کی رخصت پر جانے کی درخواستیں دے دی ہیں۔صوبہ سندھ کے ان اعلیٰ پولیس افسروں میں دو ایڈیشنل انسپکٹرز جنرل ، سات ڈپٹی انسپکٹرز جنرل اور چار سینیر سپرنٹنڈنٹس پولیس شامل ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہیں،انھیں کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور ان کی گرفتاری کے واقعے کے دوران میں جس صدمے سے دوچار ہونا پڑا ہے،اس سےانھیں نفسیاتی اور ذہنی طور پر بحال ہونے میں وقت لگے گا،اس لیے انھیں رخصت کی ضرورت ہے۔