گلگت بلتستان انتخابات: پولنگ ختم، ووٹوں کی گنتی جاری

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے گلگت بلتستان اسمبلی کی 23 عام نشستوں پر پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔ وفاق میں حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حزب اختلاف کی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں کے درمیاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

گلگت بلتستان کے اضلاع گلگت، غذر، ہنزہ، اسکردو، کھرمنگ، شگر، گانچھے، دیامیر اور استور سمیت دیگر اضلاع میں ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ انتخابات کے لیے سیکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ مجموعی طور پر 13 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔

Advertisement

اطلاعات کے مطابق گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں برف باری بھی ہوئی ہے تاہم کئی پولنگ اسٹیشنز میں ووٹرز قطار لگائے دکھائی دیے۔ انتظامیہ کے مطابق کرونا وبا کے باعث ووٹرز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔

گلگت بلتستان میں پولنگ اسٹیشنز کی مجموعی تعداد 1260 ہے جن میں مردوں کے 503 جب کہ خواتین کے 395 اور 362 مشترکہ پولنگ اسٹیشنز ہیں۔ علاقے میں رجسرڈ ووٹرز کی مجموعی تعداد سات لاکھ 40 ہزار سے زائد ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق انتخابات میں اصل مقابلہ وفاق میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف اور حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں کے مابین ہے۔

انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ حالیہ سیاسی تناؤ کے تناظر میں یہ انتخابات خصوصی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ تمام فریق انتخابات میں اپنی کامیابی کے دعوے کر رہے ہیں۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے علاوہ حکومتی جماعت کے رہنماؤں نے بھی یہاں بھرپور انتخابی مہم چلائی تھی۔

وزیر اعظم پاکستان نے بھی انتخابی مہم کے دوران یہاں ایک جلسے سے خطاب کیا اور کہا کہ بہت جلد اس علاقے کو صوبے کا درجہ دے دیا جائے گا۔

وزیر اعلٰی گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق سردی اور کرونا وبا کے باعث ووٹرز ٹرن آؤٹ کم ہو سکتا ہے۔ اُن کے بقول وبا سے بچاؤ کے لیے پولنگ کے دوران سماجی فاصلے برقرار رکھنے کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔

خیال رہے کہ گلگت بلتستان میں یہ روایت رہی ہے کہ یہاں وہی سیاسی جماعت حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی رہی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے۔

اس الیکشن میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے مقامی مسائل سے زیادہ وفاقی مسائل پر بات کی۔ انتخاب میں پاکستان کے انتخابی کلچر سے کئی چیزیں متعارف ہوئیں، جو پہلے نہیں تھیں۔

اطلاعات کے مطابق ان انتخابات میں پیسے کا بے دریغ استعمال ہوا۔ پی ٹی آئی کے وزیر علی امین گنڈا پور نے جو زبان استعمال کی، وہ علاقے کی ثقافت کی عکاس نہیں تھی۔

پہلی بار یہاں انتخابی ماحول میں گہما گہمی رہی اور بڑی تعداد میں نوجوان و خواتین سیاسی عمل کا حصہ بن رہے ہیں، جسے مبصرین خوش آئند قرار دے رہے ہے۔ تاہم یہاں بھی مبینہ طور پر نادیدہ قوتیں نواز لیگ سے پی ٹی آئی میں جانے کی ترغیب دیتی رہیں۔

پی پی پی، نواز لیگ اور پی ٹی آئی میں سخت مقابلہ ہے۔ نواز لیگ نے گلگت اور کچھ دوسرے علاقوں میں ترقیاتی کام کرائے ہیں، جو عوام کی نظر میں ہیں۔ جب کہ پی پی پی نے سب سے پہلے عبوری صوبے کے حوالے سے کچھ کام کیا تھا، جسے عوام نے سراہا۔

گلگت بلتستان میں انتخابی عمل سے پہلے پی ٹی آئی کا خطے میں وجود نہیں تھا۔ نواز لیگ کے دس سابق اراکین اسمبلی و رہنماوں کو پی ٹی آئی جوائن کرنے کا کہا گیا، جس سے اس کی پوزیشن مضبوط ہوگئی۔ اس بار طاقتور اداروں کی ہمدریاں پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ مجلس وحدت مسلیمین بھی ان کی اتحادی ہے اور شاید دو سیٹیں نکال لے۔ لہذا امکان ہے کہ وہ بھی جیتنے کے بعد پی ٹی آئی جوائن کر لیں۔ تو اس طرح پی ٹی آئی کی پوزیشن مضبوط نظر آتی ہے۔

اس علاقے میں اسی اور نوے کی دہائی میں فرقہ وارانہ کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ دہشت گردی کے کچھ واقعات بعد میں بھی پیش آئے لیکن گذشتہ سات برسوں سے علاقے میں قدرے سکون ہے۔

اس علاقے میں اہل تشیع اثنا عشری اور اسماعیلیوں کی بھی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔ جب کہ نور بخشی اور دیوبندی بھی علاقے کے طول عرض پر آباد ہیں۔ پاکستان کے شمال اور شمالی مغرب میں کرم ایجنسی کے بعد یہ واحد علاقہ ہے جہاں شیعہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ہے۔

ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق علاقے کی کل آبادی تقریبا سولہ لاکھ ہے، جس میں ساڑھے سات لاکھ کے قریب رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ کل آبادی میں شیعہ مسلمانوں کی آبادی انتالیس فیصد، ستائیس فیصد سنی، اٹھارہ فیصد اسماعیلی اور سولہ فیصد کے قریب نور بخشی ہیں۔

گلگت بلتستان کے دانشور طبقے میں قوم پرست جذبات پائے جاتے ہیں، تاہم انتخابی سیاست پر اس کا اثر قدرے محدود نظر آتا ہے۔ سینٹرل گلگت سے تعلق رکھنے والے قوم پرست دانشور شیر بہادر کا کہنا ہے کہ وفاق پرست جماعتوں کو گلگت بلتستان کے قومی سوال میں کوئی دلچسپی نہیں۔

اسی طرح جی بی کے کچھ علاقوں میں انتخابات کے دوران قبائلی اثر ورسوخ بھی اہم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ضلع دیامر میں قبائلی شناخت بہت مضبوط ہے۔ ہنزہ میں بھی قبائل کی اہمیت رہی ہے لیکن عوامی ورکرز پارٹی کے آنے سے یہ عنصر کچھ کم ہوا ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں