دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو سر کرنے کے دوران لاپتہ ہونے والے کوہ پیما علی سد پارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ ریسکیو کے لیے استعمال ہونے والے پاکستانی آرمی کے ہیلی کاپٹر میں کے ٹو بیس کیمپ سے سکردو پہنچ چکے ہیں۔
جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے آخری بار اپنے والد کو 8200 میٹر کی بلندی پر دیکھا تھا۔ تاہم کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے فضائی سرچ آپریشن کے دوسرے روز بھی ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔
کوہ پیما علی سدرپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کو یقین ہے کہ ان کے والد نے "کے ٹو " کی چوٹی سر کر لی تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں واپسی پر کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا۔
ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ آخری بار والد کو بوٹل نیک پر چڑھتے دیکھا تھا۔ سکردو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ساجد سدپارہ نے کہا کہ کوہ پیماؤں کے زندہ بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ساجد سدپارہ نے بھرپور کوششوں پر حکومت پاکستان، پاک فوج اور دعاؤں پر قوم کا شکریہ ادا کیا۔
خیال رہے کہ لاپتا پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ اور دو غیر ملکی کوہ پیما سردیوں میں بغیر آکسیجن کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ محمد علی سد پارہ نے 2016ء میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی بار نانگا پربت کو سر کیا تھا۔
انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔
کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کی مہم، نامور پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جان پابلو انتہائی بلندی پر پہنچنے کےبعد واپس نہیں پہنچ سکے ہیں۔
علی سدپارہ سمیت دیگر کوہ پیماؤں کا جمعہ سے کیمپ سے رابطہ منقطع ہے۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے کوہ پیما ٹیم کی تلاش کی گئی لیکن خراب موسم اور تیز ہواؤں کے باعث ریسکیو آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔ مہم جوئی میں علی سدپارہ کے ساتھ ان کے بیٹے ساجد سد پارہ بھی موجود تھے جو آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے پر بحفاظت کیمپ ون میں پہنچ گئے تھے۔