اقوام متحدہ کے انسانی حقوق ماہرین کاپاکستان سے بچّوں کی جبری شادی ختم کرنے کا مطالبہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے اغوا، جبری شادیوں اور تبدیلی مذہب کے واقعات میں مبیّنہ اضافے پرکڑی نکتہ چینی کی ہے اورحکومت پرزوردیا ہے کہ وہ اس طرح کے عمل کو فوری طور پر روکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں یہ سن کر شدید پریشانی ہوتی ہے کہ 13 سال سے کم عمرلڑکیوں کواغوا کیا جارہا ہے،انھیں ان کے گھروں سے دورمقامات پر لے جایا جا رہا ہے،ان کی ان سے دُگنا عمرکے مردوں سے شادی رچائی جا رہی ہے اورانھیں زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘‘۔
’’ہمیں اس بات پرگہری تشویش ہے کہ اس طرح کی شادیاں اور تبدیلیِ مذہب کے واقعات ان لڑکیوں اورخواتین یا ان کے اہل خانہ پر تشدد کے خطرے کے تحت ہوتے ہیں‘‘۔
ماہرین نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کارروائیوں کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کرے اور ان کی مکمل غیرجانبدارانہ تحقیقات کرے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایک درجن کے قریب آزاد ماہرین کے اس گروپ میں بچّوں کی فروخت اورجنسی استحصال،غلامی کی معاصر شکلوں، خواتین کے خلاف تشدد اوراقلیتوں کے مسائل پرخصوصی نمائندے شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی معروضی اور غیرجانبدارانہ تحقیقات ملک کی قانون سازی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کیے گئے بین الاقوامی وعدوں کے مطابق کی جاناچاہییں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے مقرر کردہ ماہرین نے ان رپورٹس کی طرف اشارہ کیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے خلاف جرائم کو’’بغیرکسی اہم جانچ پڑتال کے، جعلی ثبوتوں کوقبول کرکے‘‘ممکن بناتا ہے۔
انھوں نے کہا:’’اہل خانہ کاکہنا ہے کہ متاثرین کی شکایات کوپولیس شاذونادرہی سنجیدگی سے لیتی ہے، یا تو ان رپورٹوں کو درج کرنے سے انکارکردیتی ہے یا یہ دلیل دیتی ہے کہ یہ اغوا کے واقعات نہیں بلکہ 'محبت کی شادیاں' ہیں اورکوئی جرم نہیں ہواہے‘‘۔
ماہرین نے نشان دہی کی کہ اغواکاراکثر’’اپنے متاثرین کودستاویزات پردست خط کرنے پرمجبور کرتے ہیں۔یہ دست خط دراصل شادی کے لیے ان کی قانونی عمرہونے کے ساتھ ساتھ شادی اور آزادانہ مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کی جھوٹی تصدیق کرتے ہیں جبکہ ان دستاویزات کو پولیس نے ثبوت کے طورپرپیش کیا ہے کہ کوئی جرم نہیں ہوا ہے۔
عالمی ماہرین نے اس بات پرزوردیا ہے کہ ’’تمام متاثرین کوبلالحاظ مذہب اورمذہبی پس منظرانصاف تک رسائی اور قانون کے تحت مساوی تحفظ مہیّا کیاجائے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کو جبری تبدیلیِ مذہب، جبری اور کم عمری کی شادیوں، اغوا اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون سازی کرنا چاہیے اوراس پرعمل درآمد کرنا چاہیے۔