ملاؤں کا معما: شہادت یا سرنڈر؟

محمد الیحییٰ
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین نیوکلیئر معاہدہ منسوخ ہونے کے بعد تہران پر عائد کی جانے والی پابندیوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو محدود مدت تک مخصوص ملکوں کو تیل فروخت کا جو استثنیٰ دیا تھا وہ دو مئی کو ختم ہو رہا ہے جس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی مشکلات میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ کا خاموشی سے بیٹھ کر ’’طوفان ٹرمپ‘‘ گذرنے کا خواب اب چکنا چور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ تہران حکومت پردوبارہ پابندیاں لگنے سے ملکی کرنسی اور مالیاتی نظام پر گذشتہ کئی مہینوں سے دباؤ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ تیل برآمد پر پابندی کا نیا فیصلہ معیشت کو مزید ناکارہ بنا دے گا۔

گذشتہ برس کے اوائل میں مشہد سے شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے تہران سمیت ملک کے متعدد شہروں تک پھیل گئے۔ نچلے طبقے کی جانب سے کئے جانے والے مظاہروں میں ایران کے مرشد اعلیٰ علی خامنہ ای کو نام لے کر مخاطب کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے انہیں 2009 کی گرین موومنٹ سے بڑا خطرا قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ گرین موومنٹ منظم کرنے والوں کا تعلق معاشرے کے ایلیٹ طبقہ سے تھا جبکہ حالیہ مظاہروں میں نچلا طبقہ بطور روح رواں حکومت مخالف مظاہروں میں شامل تھا۔

Advertisement

ایران نے تمام طبقات زندگی کے احتجاج دیکھے ہیں تاہم اس مرتبہ مضبوط عوامی گڑھ میں ہونے والے حکومت مخالف اکٹھ نے تہران میں خطرے کی بلند آہنگ گھنٹیاں بجا دیں۔ پابندیوں کے حوالے سے ایران مغرب میں اکثر یہ دلیل دیتا چلا آ رہا ہے کہ حکومت پر پابندیاں لگانے سے عوام غیر ملکی طاقتوں کے خلاف مورچہ بند ہوں گے۔ ان کا بیانیہ ہے کہ پابندیوں سے متوسط ایرانیوں کو گزند پہنچے گا جس کی وجہ سے وہ تمام مسائل بھول کر اپنی قیادت کے گرد ہالہ بنائیں گے۔

سادہ زبان میں پابندیاں ہٹانے سے متعلق یہی دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ اس بات کےبے بنیاد ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں نمایاں ترین یہ حقیقت ہے کہ پابندیوں کے دباؤ کی وجہ سے ہی ایران پانچ عالمی طاقتوں [چین، فرانس، روس، برطانیہ] اور امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آیا جس کے بعد 2015 میں جوائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن[JCPOA] طے پایا۔

عمومی طور پر یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے ہی ایرانی رجیم کے وسائل خاتمے کا شکار ہوئے۔ دبئی سے عربی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ’’العربیہ‘‘ نیوز چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے ایران برائن ہک کا کہنا تھا:’’ہماری یو اے ای اور سعودی حکام سے ملاقاتیں بہت اچھی رہیں۔ ایران سے متعلق ہمارے اور ان کےسیکیورٹی مقاصد بڑی حد تک ہم آہنگ ہیں۔ اس لئےیہ بات ہمارے اور ان کے مفاد میں ہے کہ ایرانی حکومت کو ایسے وسائل حاصل کرنے سے باز رکھا جائے کہ جنہیں وہ اپنی خارجہ پالیسی کی ترویج کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔‘‘

عراق اور شام میں درجنوں ملیشیاؤں پر مشتمل ایران کا پراکسی نیٹ ورک کئی ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ان میں دو پراکسیز بحرین اور ایک یمن میں سرگرم ہیں جبکہ حزب اللہ نامی تہران کی فلیگ شپ پراکسی لبنان میں قدم جمائے ہوئے ہے۔ یہ تمام پراکسیز اپنی کارروائیوں کے لئے لوازمہ اور ہمدردیاں ایرانی فنڈنگ کے ذریعے ہی خریدتی ہیں۔ ایران، ان تنظیموں کو اپنی کرنسی میں مالی معاونت نہیں دے سکتا، اس کے لئے انہیں امریکی ڈالروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے تہران کے پاس اس مقصد کے لئے ڈالر کم ہیں۔

امریکی اعلان کے بعد تہران کی وزارت پیٹرولیم کے اہلکاروں کے دھمکی نما بیانات ایرانی میڈیا کی شہہ سرخیوں کا موضوع بنے جن میں ایران کی جانب سے تزویراتی اہمیت کی آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ یاد رہے خلیجی ریاستیں، آبنائے ہرمز کو ایشیائی ملکوں کوتیل کی فراہمی کے روٹ کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

ایک دن قبل شعلہ بیان جنرل حسین سلامی کو سپاہ پاسداران ایرانی انقلاب کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ یہ وہی جنرل ہیں کہ جنہوں نے جنوری 2016 میں امریکی میرینز کی گرفتاری سے متعلق قابل نفرت حریصانہ بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’گرفتاری کے وقت امریکی میرینز چلا رہے تھے۔ انھوں[میریز] نے بڑی عاجزی کے ساتھ ہماری طاقت اور بڑائی کو تسلیم کیا۔‘‘ جنرل سلامی کا یہ بیان ایرانی خبر رساں ایجنسی ’’فارس‘‘ نے جاری کیا تھا۔

موجودہ صورتحال میں ایران کے پاس دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی 12 نکات پر مشتمل شرائط مان کر ہتھیار ڈال دے۔ ایسا کر کے ایرانی حکومت اپنا علت وجود ہی کھو دیتی ہے، تاہم وہ مملکت کے پاس موجود وسائل کو اپنے عوامی بہبود کے لئے خرچ کر سکتی ہے۔ دوسرا راستہ خلیج میں یا پھر اسرائیل کے ساتھ ایک روایتی جنگ چھیڑنے کا ہے، تاہم یہ اقدام ایرانی رجیم کے قطعی مفاد میں نہیں ہو گا۔

ایران کے پاس امریکا تو کیا عرب ہمسایوں کے مقابلے میں روایتی جنگ لڑنے کا لوازمہ موجود نہیں۔ ایران اور عراق جنگ [1988] کے خاتمے کے بعد سے تہران ناموزوں جنگی حکمت عملی کے تحت اپنے دشمنوں کے خلاف خطے میں تشکیل دی جانے والی پراکسیز کے ذریعے ہی نبرد آزما رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو روایتی جنگ میں حریفوں پر مسابقت ملنا قطعی ناممکن ہے۔

ایران خطے میں اپنی حکومت عملی کی تبدیلی کے طور پر خلیجی مخالفین کے بجائے اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے، تاہم ایسا اقدام خطرات سے لبریز ہے۔

اگرچہ اس طرح کی مہم جوئی میں اسرائیل کو ایسےجانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا سامنا 1948ء کے بعد آج تک اس نے نہ کیا ہو۔ اس نوعیت کی جنگ میں ایران کے آزمودہ اتحادی حزب اللہ کو ’’مہم جوئی ‘‘ میں داد شجاعت نہ دینے پر طعن وتشنیع برداشت کرنا پڑ سکتی ہے۔ حزب اللہ اس جنگ میں مکمل طور پر ملیامیٹ تو نہیں ہو گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ملیشیا خود کو 2006ء کی جنگ کے بعد ایک مرتبہ پھر منظم کر لے، ایسا کرنا ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے لئے خطرے کی علامت ہو سکتا ہے۔

بین الاقوامی برادری اور ناراض ایرانی آبادی تمام صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے، ایسے میں تہران کو جتنا جلد ممکن ہو، فیصلہ کرنا چاہئے۔ عوامی مفاد، علاقائی سیکیورٹی، استحکام اور حتمی طور پر ملک کے مستقبل کے لئے تہران کو بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر اپنے انقلابی ایجنڈے کو خیرباد کہنا ہی پڑے گا۔ روایتی جنگ چھیڑنے کے بعد ایرانی رجیم ملبے کے ڈھیر پر ہی حکومت کر سکے گا جہاں بپھرے ہوئے عوام اس کی جان کو آئیں گے۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں