ملائشیا سمٹ کی ناکامی اور سیاسی حرکیات میں ناقابلِ واپسی تبدیلی

محمد الیحییٰ
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

ملائشیا نے گذشتہ ہفتے کوالالمپور میں مسلم طاقتوں کو متحد کرنے کی کوشش کی لیکن اس سربراہ اجلاس میں تریپن مسلم ممالک کے سربراہان ریاست نے شرکت ہی نہیں کی یا یوں کہہ لیں کہ یہ سربراہ اجلاس انھیں اپنی جانب راغب کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس ننھی سمٹ میں صرف تین ملکوں ایران ، ترکی اور قطر کے سربراہان ریاست شریک تھے۔ یہ تینوں اسلام کے ایک ازکار رفتہ ویژن کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں جو بنیادی طور پر مغرب مخالف ہے۔در حقیقت یہ ان کے اپنے عوام کے خوابوں اور امنگوں کا بھی مخالف ہے۔

Advertisement

17 دسمبر کو سعودی عرب کے شاہ سلمان نے ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد سے فون پر گفتگو میں مسلم دنیا کو درپیش مسائل کے ضمن میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے پلیٹ فارم سے مشترکہ اسلامی لائحہ عمل کی ضرورت پر زوردیا تھا۔ انھوں نے اسلامی طاقتوں کو درپیش تصفیہ طلب امورکے حل کے لیے اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔

امریکا پر11 ستمبر2001ء کو دہشت گردی کے حملوں کے بعد سے مسلم دنیا نے مغرب مخالف رویّے کی علمبردار اقوام اور مابعد نظریاتی مشرقِ وسطیٰ کی حقیقت کو قبول کرنے والے ممالک کے درمیان ایک نئی صف بندی ملاحظہ کی ہے۔

اب اسلام اور مغرب کے درمیان کوئی خرابی کی لکیر (فالٹ لائن) نہیں ہے اور شاید یہ کبھی تھی بھی نہیں، لیکن ایران اور اس کے اخوان المسلمین دوست قطر اور ترکی کے پیش کردہ ’’قدامت پرست سیاسی اسلام‘‘ اور عرب طاقتوں کے درمیان ضرور ایک فالٹ لائن موجود ہے۔ یہ عرب طاقتیں مشرقِ وسطیٰ میں تیزی سے ابھرتے تعلیم یافتہ اور عالمگیریت سے جڑے ہوئے نوجوانوں کے مقابلے میں ان ازکارِرفتہ اور معدوم نظریات کے خطرات سے آگاہ ہیں۔

ملائشیا کے لیڈر کی دعوت پر کوالالمپور میں اکٹھے ہونے والے قائدین کرام کو یہ بھی تشویش لاحق ہے کہ او آئی سی پر سیاسی اسلام کا اثر ورسوخ ماند پڑتا جا رہا ہے۔ او آئی سی نے ایک اسلامی طاقت کے طور پر ایک بین الاقوامی ادارے کی حیثیت میں اپنا کردار جاری رکھا ہوا ہے۔اس لیے ان لیڈروں کو ایک ایسے ادارے کی اشد ضرورت تھی جو ان کی متروک انقلابی سوچ کو فروغ دے سکے۔

قطرکے ملکیتی الجزیرہ نیوز چینل کے ایک پیش کار نے کوالالمپور سمٹ کے بارے میں اپنی رپورٹ میں پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس حقیقت کو رنگ آمیز انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی کہ 56 مدعو سربراہان حکومت وریاست میں سے صرف تین نے اس اجلاس میں شرکت کی ہے۔

ان صاحب نے کہا ’’اس اقدام کا بہت تھوڑی تعداد کے ساتھ آغاز مددگار ثابت ہوگا کیونکہ جب اسلامی دنیا کے لیڈر بڑی تعداد میں مجتمع ہوتے ہیں تو اس سے صرف تقسیم ہی پیدا ہوسکتی ہے یا پھر بے عملی ہوتی ہے۔اس لیے انھوں نے سوچا کہ آغاز بہت تھوڑی تعداد میں ہونا چاہیے اور اگر ان کے پاس پیش کرنے کے لیے کچھ ہے تو پھر وہ اس کو مستقبل میں او آئی سی میں پیش کرسکتے ہیں۔‘‘

مگر وہ یہ غور کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ان کا اسلامی دنیا کا تصور مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کی نوجوان نسل میں اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے۔عرب نوجوان تنازع، جدلیات اور انقلابی غوغا آرائی سے اکتا چکے ہیں۔ وہ سیاسی اسلام کی نعرے بازی کو دیکھ چکے ہیں، بالخصوص جب اس کو بامقصد اقتصادی اصلاحات کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یا مشرق سے مغرب تک دنیا کی معیشت کے ساتھ پیداواری اتصال کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر ایسے ممالک اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ عرب دنیا میں آبادی اور حساسیتوں میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلی نے نظریاتی حرکت پذیری اور نظریاتی استحصال کو بالکل معدوم کردیا ہے۔

قطر کے فنڈ سے چلنے والے الاخوان المسلمون کے حامی متعدد میڈیا اداروں کے تجربہ کار ایگزیکٹو وضاح خنفر کا الجزیرہ انگلش نے یہ بیان نقل کیا ہے کہ ’’او آئی سی پر سعودی عرب کی بالاستی ہے۔ اس لیے یہ اسلامی دنیا کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے کا کوئی درست میکانزم نہیں ہے۔‘‘

لیکن وہ یہ نشان دہی کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ان ممالک کا بحران ان کا اپنا ہی ساختہ ہے۔اس بحران کی جڑیں اس متروک نظریے میں پیوست ہیں جس نے 1979ء میں ایران میں انقلاب کے بعد جنم لیا تھا۔ اب یہ الاخوان المسلمون کے انقلابی نظریات کے شانہ بشانہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ الاخوان المسلمون کے انتہا پسندوں کے نیٹ ورک کی ترکی میزبانی کر رہا ہے اور قطر اس کی سرگرمیوں کے لیے رقوم مہیا کر رہا ہے۔

کوالالمپور سمٹ میں شرکت کے لیے تو مسلم دنیا کے 56 سربراہان ریاست کو دعوت نامے بھیجے گئے تھے لیکن ان میں سے صرف تین نے شرکت کی ہے۔ یوں یہ سمٹ ایک طرح سے سیاسی ناکامی سے دوچار ہوئی ہے لیکن یہ سیاسی ناکامی تو دراصل ایک بڑے برفانی تودے کا ہلکا سا نمونہ ہے۔

مابعد نظریاتی مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی ایک حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ نوجوان لوگ سعودی عرب میں رونما ہونے والی بڑی سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کو قبول کر رہے ہیں۔عراق اور لبنان میں نوجوان فرقہ واریت اور معاشی طور پر غیر فعال نظاموں کو مسترد کررہے ہیں۔یہ سب کچھ خطے کی سیاسی نفسیات میں ناقابل تغیّر نظریاتی تبدیلی کا مظہر ہے۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں