لبنان 2020ء میں: حزب اللہ چیلنجز سے کیسے نمٹے گی؟
لبنان میں عوامی مزاحمتی تحریک کو تین ماہ ہونے کو آئے ہیں۔اب تمام نظریں حال ہی میں نامزد کیے گئے وزیراعظم حسن دیاب کی جانب مرکوز ہیں۔ان کا انتخاب لبنانی حزب اللہ ہی نے کیا ہے۔اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ نئی حکومت تشکیل دے پائیں گے یا نہیں؟
سیاسی مںظرنامے کے پس پردہ مشاورت کا عمل بھی جاری ہے۔متعلقہ سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک سمجھوتا طے پانے کے لیے ملاقاتیں چل رہی ہیں لیکن سڑکوں پر نکلنے والے لوگوں اور بین الاقوامی برادری کے لیے یہ سب کچھ بے مقصد ہے کہ آیا حسن دیاب نئی حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہوجاتے ہیں یا نہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ریاست کا معاشی دھڑن تختہ ہونے والا ہے یا اس کا بنک دیوالا نکلنے والا ہے۔ملک کو درپیش یہ معاشی بحران بہت جلد کسی وقت حل ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔
اس کا اگر کوئی مثبت حل نظر نہیں آتا ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ حقیقت ہے کہ حسن دیاب یا موجودہ حکام کسی اور شخصیت کو ان کی جگہ وزیراعظم کے طور پر نامزد کرتے ہیں تو اس کو سڑکوں کی عوامی تحریک یا عالمی برادری کا اعتماد حاصل نہیں ہوسکے گا۔اس اعتماد کے بغیر لبنان اپنا بنک دیوالا نکلنے سے بچنے کے لیے بیرون ملک سے مالی امداد بھی حاصل نہیں کرپائے گا۔
اس نئے سال 2020ء کے اوائل ہی میں یہ واضح ہوجائے گا کہ آیالبنان مالیاتی بحران ، انسانی المیے اور سکیورٹی خطرات کے پیش نظر ایک ناکام ریاست بننے کی جانب لڑھک رہا ہے۔بظاہر یہی آگے بڑھنے کا ایک راستہ لگ رہا ہے۔اس لیے یہ سوال پوچھنا کسی قسم کا کھردرا پن نہیں کہ کیا ارباب اقتدار کو اس بات کا ادراک نہیں کہ ان کے اقتدار سے چمٹے رہنے کے کیا مضمرات ہوسکتے ہیں؟
برسر اقتدار لوگ کئی ایک ہیں۔ان میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لیڈر، اسپیکر نبیہ بری ،صدر میشیل عون اور ان کے داماد جبران باسیل ہیں۔یہ سب حزب اللہ کے اتحادی ہیں۔اس سے اس بات کا ادراک ہوجانا چاہیے کہ اس وقت لبنان میں حقیقی حاکم کون ہیں؟
یہ 2018ء کی بات ہے،جب حزب اللہ نے پارلیمانی انتخابات میں اپنی جیت کا جشن منایا تھا۔وہ اپنی بالادستی کی حامل حکومت کے قیام کے لیے آگے بڑھ رہی تھی مگر اس کے ایرانی پشتیبان اس بات کا اندازہ نہیں کرسکے تھے کہ اس کامیابی کے جلو میں چیلنجز بھی آئیں گے۔
آج ایران اور حزب اللہ جو کچھ بھی کرتے ہیں،انھیں سمجھوتا کرنا ہوگا یا پھر نقصان اٹھانا ہوگا۔اگر وہ اپنے اختیارات سے دستبردار ہوجاتے ہیں اور ایک اہل اور قابل اعتبار حکومت کو اقتدار سونپ دیتے ہیں تو پھر انھیں ریاستی اداروں تک رسائی سے محروم ہونا پڑے گا۔اگر وہ اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں اور جیسا کہ نامزد وزیراعظم دیاب کے معاملے میں نظر آرہا ہے کہ وہ اسی راستے کا انتخاب کریں گے تو پھر انھیں ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔اس صورت میں انھیں حاصل عوامی حمایت کی قیمت بھی چکانا پڑسکتی ہے اور ریاستی اداروں میں حاصل مراعات اورسہولتوں سے دست بردار ہونا پڑسکتا ہے۔
حزب اللہ نے اب تک جس بات کا ادراک نہیں کیا ہے، وہ ہے انقلاب۔اگرچہ اس انقلاب نے سابق حکومت کے دھڑن تختہ کے سوا کسی چیز کو تہ وبالا نہیں کیا ہے مگر اس نے دو بڑے مقاصد حاصل کر لیے ہیں:اوّل،ایک متحرک غیر فرقہ وار عوامی بیانیہ ،جو اب ملک میں مروج فرقہ وار بنیاد پر نظامِ حکومت کو زیادہ دیرتک قبول نہیں کرے گا۔یہ گذشتہ قریباً ایک صدی سے ملک میں رائج ہے۔دوم، حزب اللہ کے بارے میں یہ بھید کھل گیا ہے کہ وہ نظم ونسق میں ناکام رہی ہے۔
حزب اللہ نے گذشتہ تین عشروں کے دوران میں لبنان میں فرقہ پرست لیڈروں کا تحفظ کرکے یا بدعنوان سیاست دانوں سے معاملہ کاری کے ذریعے اقتدار حاصل کیا ہے لیکن حزب اللہ اس عرصے میں جوکام نہیں کرسکی ہے، وہ یہ کہ اس نے لبنان کے لیے کوئی سماجی، اقتصادی ویژن وضع ہی نہیں کیا ہے۔اس نے صرف فوجی حکمت عملیاں ترتیب دی ہیں یا پھر اقتدار کے کھیل کا حصہ بنی ہے۔
حزب اللہ ناکامی سے دوچار ہوئی ہے اور آج لبنانی عوام بہ شمول شیعہ کمیونٹی اس کو سمجھ رہے ہیں۔اقتصادی مشکلات اور بین الاقوامی دباؤ کے تناظر میں میز پر خوراک لبنانی عوام کے لیے اسرائیل کے خلاف لڑائی یا شام ، عراق اور یمن میں قبضے سے زیادہ اہمیت کی حامل بنتی جارہی ہے۔ حزب اللہ کو ان تبدیل ہوتی عوامی ترجیحات کے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ حزب اللہ 2020ء میں ان چیلنجز سے کیسے نمٹے گی؟
حزب اللہ مختصرالمیعاد کے لیے تو ایک نئی حکومت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔خواہ یہ نامزد وزیراعظم حسن دیاب ہوں یا سعد الحریری۔دیاب کی ناکامی کی صورت میں سعد الحریری ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بن سکتے ہیں۔اس عمل میں وہ عالمی برادری کا ردعمل دیکھے گی۔حزب اللہ کو یہ امید ہے کہ عالمی برادری کو لبنان میں عدم استحکام سے مزید تشویش لاحق ہوگی اور لبنان میں خواہ کوئی بھی حکومت تشکیل پاتی ہے تو عالمی برادری اس کی مالی مدد کے لیے بھاگی بھاگی آئے گی۔
اگر طویل المیعاد تناظر میں بات کی جائےتو حزب اللہ کو یہ توقع ہے کہ 2020ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی جیت جائے گی اور ایران پر عاید کردہ امریکا کی پابندیوں میں نرمی کا امکان ہے۔اس طرح ایک مرتبہ پھر حزب اللہ کو رقوم کی ترسیل شروع ہوجائے گی اور اس جماعت کا اپنا مالیاتی بحران بھی ختم ہوجائے گا۔یوں پھر بحران سے نمٹنے کے لیے حمایت اور وسائل کی آمد کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوجائے گا اور بحران سے نمٹنا اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔
تاہم یہ دونوں ممکنہ منظرنامے ہیں اور ان کا انحصار مذکورہ دونوں خواہشات کی تکمیل پر ہے۔حزب اللہ کو ابھی اس حقیقت سے بھی نمٹنا ہے کہ لبنانی عوام اب زیادہ دیر تک مزاحمتی بیانیے اور غوغا آرائی کے خریدار نہیں رہے ہیں۔اس لیے اگر حزب اللہ معجزانہ طور پر اقتصادی اور بین الاقوامی چیلنجز سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر لبنانی مزید اس جماعت اور اس کے بدعنوان اتحادیوں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہوں گے۔حزب اللہ اپنے اتحادیوں کے بغیر آیندہ پارلیمانی انتخابات میں جیت سکتی ہے اور نہ حکومت بناسکتی ہے اورنہ ریاستی اداروں تک رسائی کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
اس وقت تمام نظریں حکومت کی تشکیل کے موجودہ عمل پر مرکوز ہیں۔لبنانی عوام اور عالمی برادری کو پارلیمانی انتخابات کے انعقاد پر زور دینا چاہیے تا کہ لبنان اگلے مرحلے میں داخل ہوسکے۔غیرفرقہ وار بنیاد اور جدید انتخابی قانون کے تحت قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ 2020ء کا بڑا اور اصولی مطالبہ ہونا چاہیے۔صرف اس صورت ہی میں سڑک کے عوامی بیانیے کو ایک نئی نمایندہ پارلیمان کی شکل میں عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔اسی پارلیمان کے بطن سے ایک نئی قابل اعتبار حکومت جنم لے گی اور نیا صدر بنے گا۔
____________
حنین غدار واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے عرب سیاست پر گڈولڈ پروگرام کی پہلی فرائیڈمن وزٹنگ فیلو ہیں۔ان کی تحقیق وتنقید کا موضوع شام اور لبنان کے خطے میں شیعہ سیاست ہے۔