قاسم سلیمانی کی موت: امریکا، ایران جنگ میں فیصلہ کن موڑ

مکرم رباح
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت سے لوگ محض ٹویٹر کا شیر قرار دیتے چلے آرہے ہیں،جو غرّاتے ضرور ہیں لیکن وہ اپنے مضحکہ خیز اور تندوتیزبیانات کو عملی جامہ نہیں پہناتے ہیں۔انھوں نے جارحانہ طرزِعمل اختیار کرنے کے باوجود جب کبھی امریکا کے دشمن بالخصوص ایران،اس کی آلہ کار تنظیموں حزب اللہ اور الحشد الشعبی کے یونٹوں یا ان کے دوسرے ہمراہیوں کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت دینے کا معاملہ آیا تو اپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے ہیں۔

مگر ان کی شخصیت کے بارے میں یہ ادراک جمعہ تین جنوری کو علی الصباح پارہ پارہ ہوگیا جب یہ اطلاع سامنے آئی کہ ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اور شیعہ ملیشیاؤں پر مشتمل الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المندس بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے شہر کی جانب جاتے ہوئے امریکا کے ایک ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔

Advertisement

اس نمایاں قدری اہمیت کے حامل مگر بدنام زمانہ ہدف کے خلاف امریکا کا ڈرون حملہ دراصل کوئی زیادہ حیران کن نہیں ہے کیونکہ قاسم سلیمانی اور ان کی نسل کے آدمیوں نے جو قتل وخونریزی کی ہے،اس کے بعد انھیں بستر پر تو موت آنے والی نہیں تھی بلکہ انھیں اسی خوف ناک اور ڈرامائی انداز میں ہلاک ہونا تھا۔

تاہم حقیقی حیران کن امر اس حملے کا وقت اورصدر ٹرمپ کا امریکا کے سب سے خطرناک دشمنوں کے خلاف مہلک کارروائی کی اجازت دینا ہے۔سابق صدور جارج بش اور براک اوباما نے ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور ان سے پہلوتہی کا فیصلہ کیا تھا۔قاسم سلیمانی کی موت سے ٹرمپ کا عزم متزلزل نہیں ہوگا کیونکہ پینٹاگان نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ یہ آپریشن ایک دشمن جنگجو کے خلاف حفظ ماتقدم کے طور پر کیا گیا ہے جو مستقبل میں خطے میں امریکی اہداف کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔

قاسم سلیمانی کے قتل پر ایران کے مخالفین نے ملے جلے خوف وخدشات پر مبنی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ان میں سے ہر کوئی یہ پیشین گوئی کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اب ایران کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے کیونکہ ایران اپنے سب سے مؤثر اور مہلک اثاثے سے محروم ہوگیا ہے اور ان کی موت ان کے سرپرست ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے لیے بھی ایک براہ راست بڑا دھچکا ہے۔قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو ایران کے خلاف جنگ قراردیا جاسکتا ہے لیکن اس کے جواب میں ایران کا ردعمل غیر روایتی شکل میں ہوگا اور وہ یقینی طور پر امریکا کے ساتھ کسی کھلی جنگ سے گریز کرے گا کیونکہ اس میں وہ شکست ہی سے دوچار ہوگا۔

چناں چہ اب تمام نظریں خطے میں ایران کی بڑی آلہ کار تنظیم حزب اللہ پر مرکوز ہیں۔توقع ہے کہ وہ اپنے فیلڈ مارشل کا انتقام لینے اور ایران کے مسخ شدہ تشخص کو بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔

جمعہ کی صبح ڈرون حملے میں مبیّنہ طور پر تین لبنانی شہری بھی ہدف بنے ہیں۔یہ حزب اللہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نعیم قاسم ، حزب اللہ کی عراقی فائل کے سربراہ محمد الکوثرانی اور بیرونی کارروائیوں کے ذمے دار ثمر عبداللہ ہیں۔مؤخر الذکر حزب اللہ کے مقتول لیڈر عماد مغنیہ کے داماد ہیں۔تاہم لبنانی تنظیم کے ان تینوں سینیر ارکان کی موت کی دمِ تحریر تصدیق نہیں کی گئی تھی لیکن ان کی قاسم سلیمانی کے ساتھ موجودگی متوقع تھی۔وہ ایران کے خطے میں توسیع پسندانہ منصوبے میں اہم کردار ادا کررہے تھے۔اس لیے اب حزب اللہ کی جانب سے بھی امریکا کے حملے کاردعمل یقینی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا حزب اللہ لبنان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑے گی یا وہ کسی اچھے لمحے کے انتظار میں اب خاموش بیٹھے رہے گی اور جونہی اس کو موقع ملے گا تو وہ اپنی وضع کردہ فہرست میں شامل بہت سے اہداف میں سے کسی ایک پر حملہ کرگزرے گی۔

حزب اللہ کو بھی ایران کی بہت سی آلہ کار تنظیموں کی طرح لبنان ، شام اور عراق میں مقامی سطح پر بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے۔حزب اللہ تخریبی اور فوجی کارروائیوں میں اپنی صلاحیتوں کا سکہ منواچکی ہے،امریکا کی مالیاتی پابندیوں کے بعد اس کی نظرانداز شدہ اور دھوکا دہی کی سرگرمیاں بھی ظاہر ہوچکی ہیں۔انھیں ان ریاستوں میں مروج بدعنوانی کے نظام سے تقویت ملی تھی اور اس نظام نے ان کی معیشتوں کو گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔

جہاں تک ایران کے دوسرے اثاثوں بالخصوص الحشد الشعبی میں شامل ملیشیاؤں اور عراق میں عوامی بیداری کی حالیہ تحریک کا تعلق ہے تو ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایران کے عراق میں حقیقی شیعہ حامی موجود نہیں ہیں بلکہ وہ محض پیروکار ہیں۔ اس لیے امریکی اہداف کے خلاف بدلے میں کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو امریکا کے مقامی اتحادی اس کو برداشت نہیں کریں گے۔

قاسم سلیمانی صرف ایک تجربہ کار عسکری لیڈر ہی نہیں تھے بلکہ ایران کے ایک خود ساختہ ہائی کمشنر تھے۔ وہ خطے بھر میں سیاست دانوں سے غیرعلانیہ ملاقاتوں کے لیے پہنچ جاتے تھے،ان سے میٹھی میٹھی بات چیت کرتے،انھیں اپنے ملکوں کے عوام کی قیمت پر ایران کی شرائط پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے اور اگر وہ نہیں مانتے تھے تو انھیں ڈرانے دھمکانے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔

بغداد میں ہوائی اڈے پر ان کی مسخ شدہ لاش کے منظر کو حزب اللہ یا اس کی کوئی جونیئر شراکت دار تنظیم کسی ڈرامائی فوجی کارروائی سے دھو نہیں سکتی ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کی خود تصوری عظیم سلطنت کی کم زور معیشت اور عسکری حقیقت سے لیپا پوتی نہیں کی جاسکتی ہے۔

قاسم سلیمانی کی ہلاکت امریکا کی ایران کے خلاف جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ کی عکاس ہے کیونکہ امریکی ڈرون اور اس کے میزائلوں نے صرف دو افراد کی زندگیوں ہی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ یہ امریکا کی سابق حکومتوں کی مفاہمتی پالیسی کےخاتمے کی بھی علامت ہے۔امریکا کی سابق حکومتیں نام نہاد سنی برانڈ کی دہشت گردی کو شیعہ دہشت گردی سے ممیّز قرار دیتی رہی ہیں اور پھر اسی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہیں۔

اس سب پر مستزاد یہ کہ لبنان اور عراق میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات اور عوامی بیداری کی لہر نے ایران اور اس کی آلہ کار مختلف ملیشیاؤں کی کم زوریوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔وہ ابھی تک یہی خیال کیے بیٹھے تھے کہ اوباما ڈاکٹرائن پر عمل کیا جارہا ہے اور صدر ٹرمپ کے جنگ میں نہ کودنے کی پالیسی سے کسی نقصان سے بچیں رہیں گے۔

قاسم سلیمانی نے نہ صرف میدانِ جنگ میں (دیومالائی کردار کی حیثیت سے) شہرت حاصل کی تھی بلکہ مغربی میڈیا میں انھیں ایک ہیرو اور ولن کے کردار میں پیش کیا جاتا رہا ہے اور انھیں ایران کا ’’شیڈو کمانڈر‘‘ قرار دیا جاتا رہا ہے جبکہ درحقیقت وہ خامنہ ای کے پَرتو تھے۔حالیہ واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایسے بہروپ کردار خون بہاتے ہیں اور بالآخر خود بھی مارے جاتے ہیں۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں