کرونا کے خلاف جنگ فلسطین میں امن کی نوید بن گئی
اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور [OCHA] نے ناول کرونا وائرس کے سدباب کے لیے فلسطین اور اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی ’’عدیم النظیر باہمی تعاون‘‘ کی کوششوں کو بہت زیادہ سراہا ہے۔ باہمی تعاون کے یہ مظاہر باقاعدہ اجلاسوں، غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی طبی عملے کے لیے اسرائیلی تربیت، ٹیسٹنگ لوازمہ اورکرونا سے تحفظ کے لیے استعمال ہونے والے مخصوص لباس کی فراہمی کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
کووڈ 19 جیسی عالمی وباکا سامنا کرنے والی تمام حکومتوں کی طرح اسرائیل کو بھی اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اس خطرے کا مقابلہ دیواریں اٹھانے یا ناکے لگا کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ مقصد فلسطینیوں کو اس وائرس سے محفوظ بنا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فلسطینیوں کو بھی اپنے تیئں اس حقیقت کا علم ہوگیا ہے کہ ان کی صحت کا انحصار فی الحال اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعاون میں ہی مضمر ہے۔ تاہم پرانی روش ترک کرنا اتنا آسان نہیں لگتا۔
بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے غزہ پر حکومت کرنے والی اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] فلسطینی اتھارٹی سے کرونا وائرس خاتمے کےلئے تعاون پر خجالت محسوس کر رہی ہے۔ اس خجالت پر پردہ پوشی کے لیے حماس نے قیام امن کے لیے کام کرنے والے غزہ کے رضاکاروں کو اپنے اسرائیلی ہم خیالوں کے ساتھ آن لائن کانفرنس منعقد کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا۔ حماس نے آن لائن کانفرنس کو غزہ کےامن رضاکاروں کی جانب سے ’اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول‘ پر لانے کی کوشش اور ’بغاوت‘قرار دیا۔
حماس پر سبقت لے جانے کی کوشش میں محمود عباس کی سربراہی میں کام کرنے والی فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام ذرائع ابلاغ سے یہ خبریں نشر ہونا شروع ہوئیں کہ غرب اردن میں 73 فیصد متاثرہ افراد کو کرونا وائرس فلسطینی علاقوں میں ڈیوٹی انجام دینے والے اسرائیلی فوجیوں، یا اسرائیل میں کام کرنے والے فلسطینیوں سے منتقل ہوا۔ غرب اردن میں مقیم ہر پانچ افراد میں کم سے کم ایک شخص اسرائیل یا پھر اسرائیلیوں کے لیے قائم یہودی بستیوں میں کام کرتا ہے۔ مبینہ طور پراسرائیلی حکام فلسطینی ذرائع ابلاغ کی خبروں پر ’چراغ پا‘ ہوئے اور انہوں نے ’غیرقانونی اشتعال‘ روکنے کی غرض فلسطینی اتھارٹی کو سخت پیغام بھیجا۔
سیاسی موشگافیوں سے قطع نظر اسرائیلی تعاون اور حمایت سے ہی فلسطینیوں نے شام، لبنان، اردن اور ترکی جیسے ملکوں کی نسبت کرونا وائرس جیسی عالمی وبا کا مقابلہ بہتر انداز میں کیا۔
ورلڈو میٹر ویب سائٹ کے مطابق فلسطین کی دس لاکھ آبادی میں سے 3400 افراد کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ یہ تعداد لبنان اور ہمسایہ ملک اردن کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ دونوں ملک علی الترتیب اپنی دس لاکھ کی آبادی میں 2257 اور 2009 افراد کے کرونا ٹیسٹ کرنے کے قابل ہو سکے ہیں۔ کرونا ٹیسٹوں کے ضمن میں فلسطینی یقینی طور پر اسرائیل سے کہیں پیچھے ہیں، جہاں دس لاکھ افراد میںسے 13600 شہریوں کے کرونا ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں۔ تاہم اموات کے حوالے سے فلسطین کی کارکردگی اسرائیل کے مقابلے میں بہتر دکھائی دیتی ہے۔ اب تک کرونا وائرس سے فلسطین میں صرف دو ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں جبکہ اسرائیل میں اس وبا کا شکار بننے والوں کی تعداد 110 ہو گئی ہے۔ ورلڈو میٹر کے مطابق دس لاکھ اسرائیلیوں میں ہلاکتوں کی نسبت 14 نفوس بنتی ہےجبکہ فلسطین کی دس لاکھ کی آبادی میں یہ تعداد 0.4 فی صد ہے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل کرونا وائرس کے خلاف اپنا لائحہ عمل پوری طرح نہیں بنا سکا کیوں عالمی وبا کا پھیلاؤ اس کے قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم مشکلات کے باوجود اسرائیل یہ بات جان گیا ہے کہ وبا کا مقابلہ اسے دونوں [اسرائیل اور فلسطین] سے ختم کر کے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ مہلک وائرس بلاامتیاز اسرائیلیوں وفلسطینیوں کو متاثر کر رہا ہے۔
معاہدہ اوسلو [1993] کے بعد سے فلسطینیوں اوراسرائیلیوں کے درمیان پس پردہ پروان چڑھنے والی ہم آہنگی اور تعاون ہمیشہ ہی دونوں فریقین کے لیے مفید رہا ہے۔ تاہم کیمروں کی چکا چوند کے باعث فریقین کے درمیان پایا جانے والا جذبہ خیر سگالی غیر قانونی اشتعال انگیزی اور منافرت کاروپ دھار لیتا ہے۔ طرفین کی قیادت سمجھتی ہے کہ عوام امن اور محبت کے بجائے تنازع اور منافرت کی خوگر ہیں۔
اکثرعالمی رہنماؤں کی طرح مٹھی بھر فلسطینی قیادت اپنی ناقص کارکردگی چھپانے کے لیے شاید اسرائیل کو قربانی کا بکرا بنانا ضروری سمجھتی ہے۔ تاہم اچھی قیادت مقبول عام فیصلوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ اچھی قیادت عوام کے حق میں ہر وہ فیصلہ کر گزرتی ہے جسے وہ بہتر سمجھتی ہے۔ ایسے فیصلے بسا اوقات غیر مقبول بھی ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ہم آہنگی کی راہ پر چل کر فلسطینیوں کو تباہی سے بچانے میں مدد لی جا سکتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور حماس کو فلسطینیوں کے لئے بنیادی ڈھانچہ، آزادی نقل وحرکت اور معیشت جیسی فوری ضروریات کو مقدم جانتے ہوئے ایک دوسرے کی جانب دست تعاون بڑھانا چاہیے۔ عوام کے دلدر دور کے لئے فلسطینیوں کو ’خود مختاری‘جیسے سیاسی معاملات پر گفت وشنید کو مؤخر کرنا پڑے گا۔
فلسطین کو بہترین قیادت فراہم کرنے والے سابق وزیر اعظم سلام فیاض کے عہد حکومت میں غرباردن کی معیشت نے دن گنی اور رات چگنی ترقی کی۔ ان کا شمار اسرائیل کے ساتھ خود مختاری کے معاملات نپٹانے کے بجائے پہلے فلسطینیوں کی مشکلات حل کرنے کی پالیسی بنانے والے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ حماس اپنے طور پر معاملات کو یکسر مختلف زاویے سے دیکھتی ہے، جس میں وہ ’خود مختاری‘ اور بزعم خود طے کردہ ’قومی وقار‘ کو فلسطینیوں کی روزی روٹی سمیت تمام دوسری باتوں پر مقدم جانتی ہے۔
حماس کے مطابق، فلسطینیوں کو اپنی خستہ حال زندگی میں بہتری کے بجائے ’خود مختاری‘ کو مقدم جاننا چاہے اوراس کے حصول کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ فلسطینی علاقوں اور اسرائیل کے درمیان حالیہ ہم آہنگی اس بات کا مظہر ہے کہ وہاں بسنے والے فلسطینیوں اچھی زندگی گزارنے کا حق ناممکن بات نہیں۔ دونوں فریقوں کو جلد از جلد یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بڑھتی ہوئی غربت اور مایوسی کے مارے فلسطینی عوام کے اندر پیدا ہونے والے جوار بھاٹے کو انہیں بہتر معیار زندگی فراہم کر کے ہی کنڑول کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
عراقی ، لبنانی حسین عبدالحسین ایک کالم نگار اور لکھاری ہیں۔ وہ کویتی روزنامہ الرائے کے واشنگٹن میں بیورو چیف ہیں۔ وہ ماضی میں چیتھم ہاؤس لندن کے وزٹنگ فیلو رہ چکے ہیں۔ان کا ٹویٹر پتا یہ ہے:@hahussain