کرونا وائرس: پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز

ڈاکٹر محمد آصف احسان
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

پاکستان میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے احتیاطی تدابیر اور حفاظتی انتظامات کے حوالے سے بروقت اقدامات کیے ہیں،اسی لیے وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح دوسرے ملکوں کی نسبت بہت کم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کے زیادہ تر حصے میں کئی ہفتوں سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث معیشت بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مختلف صنعتوں کے بند ہونے اور نقل و حمل پر پابندیوں کی بنا پر قریب قریب ایک کروڑ 90 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں ان میں سے 70 فی صد افراد صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔

لاک ڈاؤن کی پابندیوں سے جو لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں ، کاروباروں اور کمپنیوں (SMEs) کے ملازمین اور محنت و مشقت کر کے روزانہ اُجرت پانے والے مزدور سر فہرست ہیں۔ حکومت نے بے روزگار افراد کی مالی معاونت کے لیے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 144 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ مذکورہ رقم آٹھ کروڑ سے زائد افراد میں مرحلہ وار تقسیم کی جائے گی۔ احساس پروگرام بلاشبہ ایک مستحسن اقدام ہے۔تاہم یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ حکومت کی اولین ترجیح مختلف معاشی اشاروں کی روشنی میں معیشت کا استحکام ہونا چاہیے۔

Advertisement

ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2019ء میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 3.3 فی صد تھی جو 2020ء میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب کم ہو کر 2.6 فی صد تک ہوچکی ہے۔ اگر لاک ڈاؤن اسی شدت کے ساتھ برقرار رہتا ہے تو پاکستانی معیشت کوآیندہ تین ماہ کے دوران میں اڑھائی کھرب روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سچ یہ ہے کہ مسائل کی کثرت، وسائل کی قلّت اور بے تحاشا غُربت کی وجہ سے بائیس کروڑ افراد پر مشتمل ملک طویل عرصے تک لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق فروری 2020ء میں وفاقی حکومت کے اندرونی اور بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 33 کھرب اور 421 ارب روپے کی ہوشربا سطح کو چھو رہا تھا۔ کرونا وائرس کی ہلاکت خیزی نے ترقی یافتہ ممالک کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں پاکستانی معیشت جو بہت حد تک قرضوں کے سہارے زندہ ہے،اس کا تو دکھڑا ہی ناگفتہ بہ ہے۔

دنیا میں شعبہ صحت پر خرچ کرنے کے حوالے سے امریکا سرفہرست ہے جو اس شعبے پر اپنی جی ڈی پی کا 17 فی صد خرچ کرتا ہے دیگر مغربی ممالک میں بھی جی ڈی پی کا معتد بہ حصہ طبی آلات و سہولیات کی فراہمی اور مریضوں کی نگہداشت کے لیے مختص ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ سرمایہ کاری کے فقدان اور حکومت کی عشروں پر محیط عدم توجہی کے باعث زبوں حالی کا شکار ہے۔

حکومت پاکستان آبادی کی کثرت اور لوگوں میں علاج کی عدم استطاعت کے باوجود صحت کے شعبے پر سالانہ جی ڈی پی کا صرف 2 سے 3 فی صد خرچ کرتی ہے۔ کرونا وائرس کے روزافزوں پھیلاؤ کے باعث یورپ اور امریکا بھی حفاظتی سازوسامان (PPE) کی قلت سے دوچار ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ادویہ اور طبی آلات و سہولیات جیسے ماسک، حفاظتی لباس اور وینٹی لیٹر کی مقامی سطح پر بین الاقوامی معیار کے مطابق تیاری کو یقینی بنائے۔ اس سے نہ صرف پاکستان اپنی طبی اور صحت سے متعلق ضروریات میں خود کفیل ہو گا بلکہ روزگار کے ان گنت مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ مخصوص تعلیم، صلاحیت اور مہارت کا متقاضی ہے۔چناں چہ لوگوں کا تعلیمی معیار بھی بلند ہو گا اور ان کی ہُنرمندی کو بھی جلا ملے گی۔

اسٹیٹ بینک نے موجودہ حالات میں معیشت کو سہارا دینے اور برآمدات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے چند ہفتے قبل شرح سُود کو 11 فی صد سے کم کر کے 9 فی صد کر دیا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک مثلاً جرمنی، فرانس، سپین اور سویڈن وغیرہ میں سود کی شرح 0 فی صد ہے۔ اقتصادی نقطہ نظر سے شرح سود جتنی کم ہو گی اتنی سرمایہ کاری زیادہ ہو گی، نت نئی ملازمتوں کے در وا ہوں گے اور لوگوں کے پاس دولت کی ریل پیل ہو گی۔ ضرورت سے زائد نقدی سے لوگ قیمتی اشیاء اور گھر وغیرہ خریدیں گے، ان کی طلب میں اضافہ ہو گا تو قیمتیں چڑھیں گی اور ان لوگوں کی مالی حیثیت مزید مستحکم ہو گی جو پہلے ہی ان بیش قیمت اور نفیس اشیاء کے مالک ہیں۔ اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے اور معیشت کے استحکام کے لیے شرح سُود میں مزید کمی کرے۔

پاکستانی معیشت موسمی تبدیلیوں سے بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان کو 1999ء سے 2018ء تک 150 سے زائد شدید موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے ملکی معیشت کو 3.8 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ موسمی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے حکومت پاکستان نے 2018ء میں 10 ارب درخت لگانے کی مہم شروع کی تھی۔ حکومت کو چاہیے کہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے لاکھوں افراد کو درخت لگانے کی مہم کے لیے استعمال کرے۔ اس سے موسمی تبدیلیوں کے مضر اثرات کا خاطر خواہ سدباب بھی ہو گا اور لوگوں کے لیے روزی کمانے کا ذریعہ بھی پیدا ہو گا۔

آئی ایم ایف، یورپی یونین اور ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ نے پاکستان کو اگلے پندرہ ماہ کے دوران میں 4.4 ارب ڈالر کی مالی امداد کی یقین دہانی کروائی ہے۔تاہم حکومت کو چاہیے کہ بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے کے بجائے خود کفالت کی کوشش کرے اور تعلیم، تعمیرات، توانائی، زراعت، صحت اور نقل و حمل ایسے شعبوں کو ترقی دے کر لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ ہر مسئلے میں اصلاح اور بہتری کا موقع موجود ہوتا ہے۔حکومت پاکستان کو کرونا وائرس کے مسئلے کو اجتماعی اور عوامی فلاح و بہبود کے موقع سے تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامان موت
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم!

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں