شام پرنئی پابندیوں کا مطلب بشارالاسد سے کاروبار میں کوئی نرمی نہیں!
شامی صدر بشار الاسد کے نظام کے خلاف سخت ترین پابندیاں آیندہ دوہفتے میں مؤثر العمل ہونے والی ہیں۔کوئی بھی ایسی فرم جو شامی نظام کے ساتھ امریکی محکمہ خزانہ کی بلیک لسٹ میں اپنا نام نہیں چاہتی ہے تو اس کو بالخصوص تعمیرات ،پیٹرولیم اور ایوی ایشن (ہوابازی) کے شعبوں میں تو بالکل کاروبار نہیں کرنا چاہیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال دسمبر میں شام پر نئی پابندیوں کے قانون کی منظوری دی تھی۔ان کا چھے ماہ کی انتظاری مدت کی وجہ سے فوری طور پر نفاذ نہیں کیا گیا تھا اور اب یہ نافذ کی جارہی ہیں۔ان پابندیوں کے قانون کو شامی فوج کے ایک فوٹوگرافر کا نام دیا گیا ہے۔وہ اسد رجیم کے تفتیش کاروں کے عقب میں لاشوں کی 55 ہزار تصاویرکے ساتھ بھاگ گیا تھا۔امریکا کے وفاقی ادارہ تحقیقات (ایف بی آئی) کی ڈیجیٹل ایوی ڈینس لیباریٹری نے ان تصاویر کا جائزہ لیا تھا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ سیزر نے ان میں کوئی تحریف تو نہیں کی، کوئی رد وبدل تو نہیں کیا۔
امریکی پابندیوں کا تجزیہ کرنے والوں نے سیزر قانون کے تحت عاید کی جانے والی قدغنوں کو’’ثانوی‘‘ قرار دیا ہے کیونکہ ان کا اطلاق غیر امریکی شہریوں اور کمپنیوں پر ہوگا جبکہ ’’پرائمری‘‘ پابندیوں کا اطلاق امریکی شہریوں اور اداروں پر ہوتا ہے لیکن یہ تفریق کوئی امتیازی نوعیت کی نہیں ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے پتے کی بات یہ ہے کہ وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ ثانوی پابندیوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ کانگریس نے ان پابندیوں کو لازمی قراردیا ہے اور ان کے نفاذ کا معاملہ صدر کی صوابدید پر نہیں چھوڑا ہے۔پابندیوں کی لازمی نوعیت نے ان کی خلاف ورزی کے مرتکبین کو اب سخت مشکل میں ڈال دیا ہے ،قطع نظر اس بات کے کہ وائٹ ہاؤس میں کون بیٹھتا ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر قیادت امریکی محکمہ خزانہ نے شام پر پابندیوں کے نفاذ کا عمل تیز ہی کیا ہے۔اس لیے یہ توقع بلا جواز ہوگی کہ بشار الاسد کے ساتھ کاروبار کرنے والوں سے کوئی نرم روی کا برتاؤ کیا جائے گا۔
فرموں کو اس بات کی توقع نہیں کرنی چاہیے کہ کرونا وائرس کی وَبا کی وجہ سے شامی نظام پر امریکی پابندیوں کے اطلاق میں کوئی نرمی کی جائے گی۔ایران کے کووِڈ-19 کی وَبا کے علاقائی مرکز کے طور پر ابھرنے کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیموکریٹک سینٹیروں اور یورپی مدبروں کے اتحاد کے تہران پر عاید پابندیوں میں نرمی کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔
اگر پابندیوں میں نرمی کی جاتی تو ایران کے ملّائی نظام کے ہاتھ رقوم آجاتیں اور وہ انھیں صحت عامہ پر خرچ کرنے کے بجائے حماس اور لبنان کی حزب اللہ ایسی دہشت گرد تنظیموں کو فنڈ مہیا کرنے کے لیے بآسانی استعمال کرسکتا تھا۔
شام پر بھی اسی طرح کی منطق کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔امریکا میں شامی عوام کے بارے میں گہری تشویش پائی جاتی ہے لیکن شام پر عاید پابندیوں میں نرمی کے لیے اندھی حمایت بھی پائی جاتی ہے جبکہ کسی کو یہ بھی توقع نہیں کہ جو نظام ملک میں اسپتالوں پر بمباری کررہا ہے اور کیمیاوی ہتھیار استعمال کررہا ہے، آیا وہ کووِڈ-19 کے خلاف جنگ میں بھی کوئی نئی رقم صرف کرے گا۔
تاہم پابندیوں کے خاتمے کے بغیر بھی ایران اور شام میں عوام کی مدد کے اور طریقے بھی ہوسکتے ہیں۔ایران کے معاملے میں تو ٹرمپ انتظامیہ یہ کہہ چکی ہے کہ تہران حکومت انسانی تجارت کے لیے قائم کردہ ایک خصوصی چینل کے ذریعے مغرب سے ادویہ اور طبی آلات کی خریداری کرسکتی ہے۔ امریکا نے یہ چینل گذشتہ سال سوئس شراکت داروں کے تعاون سے قائم کیا تھا۔
شام کو کسی خصوصی تجارتی چینل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ کسی قسم کی درآمدات کی سکت نہیں رکھتا ہے۔اس کے بجائے اقوام متحدہ کا اربوں ڈالر پر مبنی امدادی پروگرام شامی عوام کی مدد ومعاونت کے لیے ایک متعلقہ چینل ہوسکتا ہے اور اس کو کووِڈ-19 کے خلاف جنگ یا دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔امریکا ہر سال پہلے ہی اس امدادی پروگرام کے لیے کروڑوں ڈالر مہیا کرتا ہے۔
ایران کو امریکی پابندیوں میں نرمی کی اگر کوئی امید ہوسکتی ہے تو وہ یہ کہ آیندہ نومبر میں امریکا میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ڈیمو کریٹس کا دوبارہ وائٹ ہاؤس پر کنٹرول ہوجائے۔ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن یہ کہہ چکے ہیں وہ ایران کے ساتھ جوہری ڈیل میں امریکا کی دوبارہ شمولیت کو بحال کریں گے۔ ان کے حریف صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018ء میں ایران کے ساتھ طے شدہ اس جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اس کے بعد ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔ اس ڈیل کی اصطلاح میں ایران کو پابندیوں میں ریلیف دینے کا معاملہ بھی شامل ہے۔
بشارالاسد ایک ایرانی موکل ہوسکتے ہیں لیکن انھیں اس بات کی توقع نہیں کرنی چاہیے کہ اگر جو بائیڈن صدر منتخب ہوجاتے ہیں اور وہ جوہری ڈیل کو بحال کرتے ہیں تو پھر امریکی دباؤ میں بھی کمی واقع ہوجائے گی۔
کانگریس میں دونوں جماعت کے ارکان نے کثرت رائے سے سیزر لا کی منظوری دی تھی۔ ضابطہ کار کی وجہ سے اس کی منظوری میں تین سال کا عرصہ لگا ہے۔صرف ایک سینیٹر رینڈ پال نے اس کی منظوری کی راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹیں حائل کی تھیں لیکن اب واشنگٹن میں یہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور سیزر قانون جیت چکا ہے۔
اسد رجیم کا اب تک روس اور ایران کی فوجی مداخلت کی بدولت دھڑن تختہ نہیں ہوا ہے لیکن اس سیزر قانون سے واشنگٹن کے اس عزم کی عکاسی ضرور ہوتی ہے کہ وہ بشارالاسد کی مدد کے خواہاں ان تمام افراد کو قابل احتساب ٹھہرانا چاہتا ہے جو اب اسدی فورسز کے ہاتھوں تباہ شدہ ملک کی تعمیرِ نو میں بھی ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں۔
_____________________
ڈیوڈ ایڈیسنک فاؤنڈیشن برائے دفاع جمہوریت میں سینیر فیلو اور ڈائریکٹر ریسرچ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ان کا ٹویٹر پتا یہ ہے: @Adesnik.