عہدِ کرونا کی باقیات
سب سے پہلی انسانی تہذیب نے لگ بھگ آٹھ ہزار سال قبل میسوپوٹیمیا (Mesopotamia) یعنی وادیِ دجلہ و فرات میں جنم لیا تھا۔ یہاں کے باشندوں نے تاریخِ عالم میں اوّل مرتبہ زراعت کی ابتدا کی اور رسم الخط کو رواج دیا۔ یہ لوگ رشتہ الفت رکھتے تھے۔ باہم زندگی گزارتے اور بچوں کی پرورش کرتے تھے۔ خوشامد کرتے اور اونچے عہدے پانے کی کوشش کرتے تھے۔ مال کماتے اور پس انداز کرتے تھے۔ جنگیں لڑتے اور خون خرابا کرتے تھے۔ سازشیں کرتے اور دغا دیتے تھے۔ دشمنوں کے مرنے کی دعا اور اپنے حالات کی شکایت کرتے تھے۔ ان کی زندگی میں حرارت بھی تھی اور شرارت بھی۔ تاہم وقت کی بے رحم رفتار برقرار رہی۔آج ان کی محفلیں سونی اور آبادیاں بے نام و نشان ہیں۔
دنیا کے طویل ترین دریائے نیل کے اطراف میں ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے آباد مصری تہذیب کو دیکھیں۔ وہ لوگ تشریح الابدان، ریاضی اور فن تعمیر میں یکتائے زمانہ تھے۔ آج ان کی میراث کیا ہے؟ جابجا قبروں کے نشان اور حنوط شدہ لاشیں!
ساڑھے چار ہزار سال پرانی یونانی تہذیب نے دنیا کو حیاتیات، طبیعیات، علم نجوم، علم ہندسہ اور جمہوری نظام حکومت کے تصورات سے روشناس کروایا۔ وقت گزرتا رہا انسان نے علم و تحقیق کے بل بوتے پر نت نئی چیزیں دریافت کی۔ یونانی افکار و نظریات کی اکثریت اب سال خوردہ ہو چکی ہے۔
اڑھائی ہزار سال پہلے دنیا میں رومی سامراج کا طوطی بولتا تھا۔ موجودہ دور میں بحر متوسط (بحرروم) کے گردا گرد آباد تمام 23 ممالک رومی سلطنت کے زیر نگیں تھے۔ زمانے کی فسوں گری کا مشاہدہ کریں: رومی استعماریت کے بلند پایہ ستون آگسٹس، جولیس سیزر، کلاڈیس، نیرو اور ہیڈرین جن اجزا و عناصر سے وجود میں آئے تھے،ان ہی میں ڈھل کر ابدالآباد تک فنا ہو گئے۔
اس وقت دنیا کرونا وائرس کی صورت میں ایک بہت بڑے انسانی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ امیر ترین ملکوں کی معیشتیں بھی ڈانواں ڈول ہیں۔ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے دنیا کو اس وائرس کے چنگل سے کب اور کیسے نجات ملے گی۔ تاہم ایک بات یاد رکھیں: وقت پر دھول نہیں جمتی۔ اگر اچھے لمحات بیت جاتے ہیں تو برا وقت بھی سدا نہیں رہتا۔ انسان کی فتوحات اور کامیابیاں قصہ پارینہ بن جاتی ہیں تو ذلت و رسوائی کے داغ بھی دھل جاتے ہیں۔ نیک اندیشی کا دور گزر جاتا ہے تو انتقامی جذبات کی شدت میں بھی کمی آ جاتی ہے۔
قدیم تہذیبوں کی طرح عہد کرونا بھی جلد یا بدیر ختم ہو جائے گا اور اس کی عبرت انگیز داستانیں تاریخ کا حصہ بن جائیں گی۔ آپ نے کبھی سوچا ہے جب حالات درست ہوں گے تو آپ کی زندگی کیسی ہو گی؟ کوئی مثبت تبدیلی رونما ہو گی یا ماضی کے طور طریق برقرار رہیں گے؟ مغربی ممالک میں یہ بات زیر بحث ہے کہ وائرس کے خاتمے کے بعد میکدوں میں شراب پینے کا کیا معمول ہو گا؟ ناچ رنگ کی محفلیں کتنے تواتر سے جمیں گی؟ قحبہ خانوں کی رونقیں کیسے بحال ہوں گی؟
اہلِ مغرب بڑی دل جمعی کے ساتھ ’’ناچنے نکلی تو گھونگھٹ کیسا‘‘ کے مسلک پر عمل پیرا ہیں، ان پہ نوحہ کرنا بے سود ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہمارے انداز و اطوار ہمیشہ سے قابل رشک رہے ہیں تو ان کو مزید سنوارنا چاہیے۔ جس طرح برائی کی کوئی حد نہیں ہوتی، اسی طرح نیک کردار بھی بے پایاں ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر ماضی میں ہماری عادتیں اچھی نہیں تھی یا طبیعت لا ابالی تھی تو ہمیں لازمی طور پر اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی اخلاقی، دینی اور سماجی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ایک ذی شعور اور سلیقہ مند انسان کی علامت ہے۔ اس شخص کا رتبہ بلند تر ہے جو گناہوں پر ندامت کا اظہار کرتا ہے اور اپنی زندگی کو بدلنے کا عزم کرتا ہے۔
عکرمہ رضى الله عنه کی مثال دیکھیں۔ آپ رسوائے زمانہ دشمن اسلام ابوجہل کے بیٹے تھے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں باپ کی طرح آپ بھی اہل ایمان کی جان کے بیری تھے۔ غزوہ بدر، احد اور خندق میں عکرمہ کی تلوار کفار و مشرکین کی طرف سے بے نیام تھی۔ آپ عرب کے مانے ہوئے جنگ جو سالار تھے چناں چہ عکرمہ نے مسلمانوں کو زک دینے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپ نے حبشہ کی طرف راہ فرار اختیار کی۔ تہامہ سے سمندری سفر شروع کیا۔ راستے میں کشتی طوفان کی لپیٹ میں آ گئی۔ سب بولے : "اللہ کو مدد کے لیے پکارو!" عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا اگر پانی میں مصیبت کے وقت اللہ کو پکارتے ہیں تو خشکی میں بھی تن تنہا اس کی عبادت کرنی چاہیے اور یہی بات محمد صلى الله عليه و سلم کہتے ہیں ۔چناں چہ میں نے عہد کیا کہ اگر اس طوفان سے میں صحیح سالم نکل گیا تو اسلام قبول کر لوں گا۔
آپ حبشہ سے واپس آئے اور نبی اکرم عليه الصلاة و السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ بعد میں عکرمہ بن ابی جہل پوری عمر اسلام کے بے لوث اور مخلص سپاہی کی حیثیت سے میدان جہاد میں لڑتے رہے۔ معرکہ یرموک میں گھمسان کا رن پڑا۔ ستر سے زیادہ زخم کھانے کے بعد عکرمہ گھوڑے سے گر گئے۔ حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ رضى الله عنهما بھی زخموں سے چور آپ کے ساتھ تھے۔ خون میں لت پت حارث کے پاس ایک شخص پانی کی چھاگل لے کر پہنچا۔ حارث نے کہا:’’پہلے عکرمہ کو پلاؤ!‘‘وہ شخص عکرمہ کے پاس پہنچا تو آپ نے کہا: ’’پانی پہلے عیاش کو دو!‘‘ وہ شخص عیاش کے پاس پہنچا تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ عکرمہ کے پاس آیا تو ان کی زندگی پر بھی شہادت کی مہر ثبت ہو چکی تھی۔ حارث کے پاس پہنچا تو وہ بھی دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔؎
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
جب لومڑی خرگوش کی چیخ سنتی ہے تو دوڑ کر اس کے پاس جاتی ہے لیکن مدد کے لیے نہیں، اسے کھانے کے لیے۔ عکرمہ بن ابی جہل کو اللہ سبحانه و تعالىٰ نے موقع دیا وہ اطاعت و فرمانبرداری کا تابندہ ستارہ بن کر چمکے لیکن ابو جہل، ابو لہب، اُمیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ کو توفیق نہ مل سکی اور وہ سب کفر و شرک کی حالت میں مرے۔ اپنی اصلاح اور درستی کا موقع ملے تو اس کی قدر کریں وگرنہ افراد کیا، پوری پوری قوموں کا صفحہ ہستی سے نام و نشان مٹ جاتا ہے۔