طیب ایردوآن کی لیبیا پر چڑھائی سے یورپی یونین کو درپیش خطرات

سلمہ محمد
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

جنگ زدہ لیبیا میں ترکی کو داخل ہوئے چھے ماہ ہونے کو آئے ہیں۔جنوری کے اوائل میں ترک پارلیمان نے صدر رجب طیب ایردوآن کے ایماء پر لیبیا میں فوجیوں کی تعیناتی کے لیے قرارداد منظور کی تھی۔ترکی نے اس کے بعد لیبیا کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قومی اتحاد کی حکومت ( جی این اے) کی حمایت میں فوج تعینات کردی تھی۔ جی این اے کی حکومت 2015ء میں خانہ جنگی کا شکار ملک کا نظم ونسق چلانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔

ترکی کی فوجی کارروائی ابتدا میں یوں ترتیب دی گئی تھی کہ جی این اے فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر کے زیر قیادت لیبی قومی فوج ( ایل این اے) کے حملوں کا مقابلہ کرسکے۔ایل این اے نے گذشتہ ایک سال سے جی این اے کی فورسز کے خلاف حملے تیز کررکھے تھے جس کی وجہ سے لیبیا کی اس مہنگی خانہ جنگی میں بھی شدت آئی تھی۔

Advertisement

لیکن مبصرین نے شروع ہی سے صدر ایردوآن کی فوجی چڑھائی کے مذموم مقاصد کی نشان دہی کرنا شروع کردی تھی۔مشرقِ اوسط میں دوسرے بہت سے تنازعات کی طرح لیبیا میں ترکی کی فوجی موجودگی کا ایک بڑا محرک توانائی ہی ہے۔ترک فوجیوں کو لیبیا میں بھیجنے سے چندے قبل علاقائی لیڈروں کا ایتھنز میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا۔اس میں اسرائیل ، قبرص اور یونان کے نمایندے شریک ہوئے تھے۔اس میں انھوں نے سمندر کے نیچے پائپ لائن بچھانے کے ایک بڑے منصوبے کے بارے میں مشترکہ فریم ورک پر تبادلہ خیال کیا تھا۔اس پائپ لائن بچھانے کا مقصد بحر متوسط کے جنوب مشرقی حصے میں واقع نئے آف شور ذخائر سے حاصل ہونے والی گیس کو براعظم یورپ تک پہنچانا ہے۔ترکی، جس نے ہنوز از خود گیس کے کوئی ذخائر دریافت نہیں کیے ہیں،اس کو اس منصوبے میں شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔اس پائپ لائن منصوبے سے بے دخلی کے بعد ترکی کے نہ صرف اپنے روایتی حریفوں قبرص اور یونان کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے بلکہ وہ غیر معمولی تشویش وابتلاء کا بھی شکار ہوگیا تھا۔

ترکی نے گذشتہ برسوں کے دوران میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے کئی ایک ناکامیاب کوششیں کی ہیں اور ان میں بعض غیر قانونی بھی تھیں۔ترکی نے ان ناکامیوں کے بعد توانائی کے وسائل کے حصول کے لیے لیبیا کی طرف شراکت داری کا ہاتھ بڑھایا تھا۔اس نے 2019ء کے آخر میں سمندری حدود سے متعلق جی این اے کے ساتھ ایک سمجھوتا طے کیا تھا۔اس سے ترکی کو لیبیا کے آف شور ذخائر تک رسائی حاصل ہوگئی تھی۔اس سے چند ہفتے قبل ترکی کے وزیر توانائی نے سمندر کے نیچے تیل کی دریافت کا کام شروع کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔

ترکی نے اس سمجھوتے کے ذریعے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔ایک تو اس نے توانائی کے ذخائر تک رسائی حاصل کی ہے۔دوسرا ، اس نے لیبیا میں اس طرح کے اقدامات سے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور مغرب پر برسنے کے لیے ایک وسیع تر حکمت عملی وضع کی ہے۔

لیبیا کی خانہ جنگی کے دونوں بڑے متحارب فریقوں کو علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔جی این اے کو اقوام متحدہ نے تسلیم کررکھا ہے جبکہ امریکا ، اردن ، سعودی عرب ، مصر ، متحدہ عرب امارات ، روس اور فرانس لیبی قومی فوج کی حمایت کررہے ہیں۔ طرفین لیبیا کی خانہ جنگی کو مشرقِ اوسط میں اپنے اپنے وسیع تر ویژن کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ خیال کرتے ہیں۔درحقیقت اعتدال پسند اور حقیقت پسند اقوام فطری طور پر خلیفہ حفتر کی پشتیبانی کررہی ہیں کیونکہ وہ اپنے ملک سے انتہا پسند اور جنگجو عناصر کا قلع قمع کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

ترکی جی این اے کی حمایت کرکے دراصل دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والی ریاست قطر اور انتہا پسند الاخوان المسلمون کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔ وہ دراصل مجموعی طور پر ایک غیرفعال اور کرپٹ گورننگ باڈی کی پرداخت کررہا ہے تاکہ اس کے ذریعے جنگ زدہ ملک میں استحکام کویقینی بنایا جاسکے۔

ترکی کا لیبیا میں فوری جغرافیائی سیاسی مقصد اپنے علاقائی ہمسایوں بالخصوص مصر ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کنٹرول کو محدود کرنا ہے۔ یہ تینوں ممالک دراصل خطے میں ملیشیاؤں کے خلاف جنگ کے لیے پُرعزم ہیں لیکن ترکی کا لیبیا میں شاید سب سے بڑا مذموم مقصد یورپی فریقوں کو ضرر پہنچانا ہے۔

لیبیا یورپ کو خام تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے۔گذشتہ کئی برسوں سے لیبیا کی تیل کی پیداوار یورپی ممالک کی ایندھن کی ضروریات کو پورا کررہی ہے۔لیبیا کے توانائی کے شعبے پر کنٹرول کے ذریعے ترکی ایک ایسے براعظم کو توانائی کے اہم وسائل کی بہم رسانی میں رخنہ ڈال سکتا ہے جو پہلے ہی کووِڈ-19 کی وبا پھیلنے کے بعد اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے۔

ترکی تیل کی سپلائی کو محدود کرنے کے علاوہ یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین کو نہ روکنے کی بھی دھمکی دے چکا ہے۔صدر طیب ایردوآن یورپ کو متعدد بار خبردار کرچکے ہیں کہ اگر ترکی کے مختلف معاشی مطالبات کو پورا نہیں کیا جاتا ہے تو وہ ردعمل میں مہاجرین کے براعظم یورپ کی جانب آزادانہ بہاؤ کی اجازت دے دے گا۔ ترک وزیر خارجہ مولود شاوش اوغلو نے حال ہی میں یہ عندیہ دیا ہے کہ کووِڈ-19 کی وبا میں نرمی آنے کے بعد مہاجرین دوبارہ یورپ کا رُخ کرسکتے ہیں۔ اگر ترکی اپنی ان دھمکیوں پر عمل پیرا ہوتا ہے تو یورپ کو ایک مرتبہ پھر مہاجرین کے بحران کا سامنا ہوگا اور اس کا خمیازہ اس کی سماجی خدمات کو بھگتنا پڑے گا۔

توانائی اور مہاجرین کا مسئلہ دونوں ہی یورپی معاشرے کے لیے سنگین خطرات کے نمایندہ ہیں اور ترکی اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ بہت سی یورپی قوتیں ترکی کی لیبیا میں مہم جوئی کو بڑھ چڑھ کر ہدف تنقید بنا رہی ہیں۔یورپ کی حکومتیں ترکی کی لیبیا میں پالیسیوں کا فعال انداز میں مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہیں اور فرانس اس ضمن میں نیٹو کی امداد کا خواہاں ہے۔ فرانسیسی صدر عمانوایل ماکروں نے مبیّنہ طور پر اس معاملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی ہے اور آیندہ ہفتوں کے دوران میں اس موضوع پر مزید تبادلہ خیال متوقع ہے۔روس نے تو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے بڑی خاموشی سے ملک کے وسط میں اپنے لڑاکا طیارے بھیج دیے ہیں اور وہ لیبیا میں اس وقت ترکی کے موجود اثاثوں کا زیادہ چابک دستی سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔

یورپ کے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے کہ لیبیا کو ترکی کی فوجی چڑھائی سے بچایا جائے اور صدر ایردوآن کو اس ملک کے اثاثوں پر کنٹرول سے روکا جائے۔ یورپی یونین اور مغرب کو مشترکہ طور پر لیبیا کے بارے میں غیرمتزلزل مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔صرف اس طریقے ہی سے لیبیا کی جارحیت کو روکا جاسکتا ہے۔
------------------------------------------------
لندن میں مقیم سلمہ احمد مینا کی تجزیہ کار اور صحافیہ ہیں۔وہ مشرقِ اوسط اور شمالی افریقا ( مینا) کے خطے کے سیاسی اور سلامتی سے متعلق امور کے بارے میں لکھتی ہیں۔سلمہ احمد بنیادی طور پر میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں اور کارڈیف یونیورسٹی کے سیاسیات پروگرام کی گریجوایٹ ہیں۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں