کووڈ-19 کے معاشی مضمرات اور عالمی بنک کی پیشین گوئی

ڈاکٹر محمد آصف احسان
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

کرونا وائرس کے بے خور و خواب پھیلاؤ سے چھے ماہ کے قلیل عرصے میں ایک کروڑ 25 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں اور چھے لاکھ کے لگ بھگ لوگ ابدی نیند سے ہم آغوش ہو چکے ہیں۔ کووڈ-19 نے پوری دنیا کے اقتصادی منظرنامے کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ مالیاتی دشواریوں اور حالات کی بے یقینی نے ترقی یافتہ معیشتوں کو برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک جو پہلے ہی طبی سہولتوں کے فقدان، غربت اور ناخواندگی جیسے مسائل سے دوچار تھے، اب اپنے محدود وسائل کے ساتھ وائرس کے مضرت رساں نتائج سے بھی نبرد آزما ہیں۔

ہر ملک کووڈ-19 کے ارتقاء، دائرہ کار، دورانیے اور سب سے بڑھ کر حکومتی پالیسیوں کے اثرات کی بنا پر معاشی چیلنجز کی مختلف شدت و نوعیت کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ وائرس کے معاشی مضمرات کے حوالے سے کوئی بھی عددی پیشین گوئی یا رائے زنی حتمی نہیں۔ تاہم سابقہ اعداد و شمار کی روشنی میں 21-2020 میں مندرجہ ذیل تین منظر نامے قرین قیاس ہیں:

Advertisement

پہلی صورت (جس کا امکان مخدوش نظر آرہا تھا) یہ ہوسکتی ہے کہ رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں کرونا وائرس کا زور گھٹنا شروع ہو گا۔ چناں چہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں لاک ڈاؤن کے اصول و ضوابط میں بتدریج نرمی کردی جائے گی۔ 2020 کی تیسری سہ ماہی یا نصف ثانی میں زیادہ تر کاروبار کھل جائیں گے، مختلف معاشی شعبے معمول کے مطابق کام شروع کر دیں گے، لوگوں کی روزی کھلے گی اور عوامی اخراجات میں اضافہ ہو گا۔

کووڈ-19 کے اقتصادی نتائج و عواقب کے اعتبار سے یہ صورت حال سب سے کم ضرر رساں ہے۔ چناں چہ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق 2020 کے اختتام تک عالمی پیداوار میں محض 4 فی صد کمی ہو گی اور تجارت کا مجموعی حجم 10 فی صد تک گھٹ جائے گا۔ تاہم 2021 کے اوائل میں حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے اور اس سال کے دوران میں عالمی شرح نمو میں 5 فی صد تک اضافہ ہو گا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ 2020 کے نصف ثانی میں وائرس کا پھیلاؤ زوال پذیر ہو گا۔ بنابریں لاک ڈاؤن اور دوسری پابندیوں میں بادل نخواستہ نرمی آئے گی۔ متعدد کمپنیاں گذشتہ قرضوں اور پیہم نقصانات کی وجہ سے مزید سرمایہ کاری سے گریز کریں گی۔ بین الاقوامی سفر اور سیر و سیاحت کا شعبہ سست روی کا شکار رہے گا۔ روزگار کے محدود مواقع لوگوں کو کفایت شعاری پر مجبور کریں گے اور پس اندازی کے رجحان میں اضافہ ہو گا۔

اس صورت حال میں عالمی بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال کے اختتام تک عالمی پیداوار میں 5.2 فی صد کمی ہو گی جو 2009ء کے مالی بحران سے لگ بھگ تین گنا زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ عالمی تجارت کا حجم 13 فی صد تک کم ہونے کا امکان ہے۔ 2021 کے اوائل میں مشکلات کسی نہ کسی حد تک موجود رہیں گی اور معاشی حالات کی بہتری میں وقت لگے گا۔

تیسری صورت (جس کے معاشی اثرات سب سے زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں) یہ ہے کہ تمام احتیاطی تدابیر اور حفاظتی انتظامات کے باوجود کرونا وائرس کا جن بے قابو رہے گا۔ سخت لاک ڈاؤن، سماجی دوری اور نقل و حمل پر پابندیوں کی بدولت تیل کی قیمتیں مزید گریں گی، لا تعداد کمپنیوں کا دیوالہ نکل جائے گا اور عوامی اخراجات میں زبردست کمی واقع ہو گی۔ عالمی بنک کے مطابق 2020 کے آخر تک عالمی پیداوار 8 فی صد تک کم ہو جائے گی۔ آیندہ سال بھی عالمی شرح نمو بہ مشکل رفتار پکڑے گی اور اس میں صرف 1.3 فی صد تک اضافہ ہوگا۔

اس وقت قطعی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیندہ حالات کیا روپ دھاریں گے۔ جو بات شک و شبہ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سبحانهُ و تعالىٰ نے قرآن حکیم کے اس پیرایہ بیان میں دنیوی زندگی، انسان کی خود اختیاری اور رعونت کی بجا طور پر قلعی کھول دی ہے: ’’دنیوی جاہ و منزلت کی مثال اس طرح ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا جس سے زمین کی نباتات، جن کو انسان اور چوپائے بارغبت کھاتے ہیں، خوب گھنی ہوئیں۔ یہاں تک کہ جب وہ قطعہ زمین سرسبز و شاداب ہو گیا اور اس کی زیبائش کا جوبن پھٹ پڑا اور اس کے مالک نے گمان کیا کہ اب ہر چیز اس کے تصرف میں ہے تو شب و روز کی کسی گھڑی میں ہمارا عذاب آ گیا اور چارسُو پھیلی ہوئی تازگی اور ہریالی کو ہم نے اس طرح جڑ سے اکھاڑ دیا جیسے گذشتہ روز وہاں کوئی جنگل بیابان تھا۔‘‘

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں