یواے ای اور اسرائیل میں معاہدۂ ابراہیم: سعودی عرب کے لیے ایک نیا موقع
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے گذشتہ ماہ جب معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے ’’معاہدۂ ابراہیم‘‘ کا اعلان کیا تو مشرقِ اوسط میں اس کا ردعمل ملا جلا تھا۔بعض ممالک نے اس کی حمایت کا اظہار کیا اور بعض نے اس کی مذمت کی۔بحرین اور عُمان نے اس معاہدے کو سراہا ہے جبکہ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی مذمت کی ہے اور اس کو فلسطینیوں کے نصب العین سے انحراف کے مترادف قرار دیا ہے۔دوسری جانب سعودی عرب نے اس کے بارے میں ابتدائی طور پر تو خاموشی ہی اختیار کی تھی۔
اس معاہدے کے اعلان کے کوئی ایک ہفتے کے بعد سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اس موضوع پر ایک قسم کا ایک سرکاری بیان جاری کیا تھا۔ انھوں نے برلن کے دورے کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی ، فلسطینی امن معاہدے تک اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار نہیں کیے جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ ’’بین الاقوامی معاہدوں کی بنیاد پر امن کا قیام معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے پیشگی شرط ہونا چاہیے۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ اور سیاسی پیش رفتوں کے تناظر میں کیوں ایک مختلف پالیسی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟ اور سعودی عرب جی سی سی (خلیج تعاون کونسل) کے بڑے کھلاڑی کی حیثیت سے اس معاملے میں آگے بڑھ کر کیسے قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔
جون 1967ء کی چھے روزہ جنگ کے بعد خرطوم میں اسی سال 29 اگست کو عرب لیگ کا سربراہ اجلاس منعقد ہوا تھا اور اس میں ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔ یہ تین 'ناں ' پر مشتمل تھی: اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا،اس سے امن نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ مذاکرات بھی نہیں کیے جائیں گے۔اس قرارداد میں تمام فلسطین پر فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا۔یعنی ان کی سرزمین پر قائم اسرائیل کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
تاہم،اس کے دس بارہ سال کے بعد اس وقت سب سے اہم عرب ملک مصر نے 1979ء میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ طے کر لیا تھا۔اس کے نتیجے میں تمام جزیرہ نما سیناء پر دوبارہ اس کو کنٹرول حاصل ہوگیا تھا۔1994ء میں اردن اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ طے کرنا والا دوسرا عرب ملک بن گیا تھا۔اس طرح ان ملکوں کے درمیان جنگوں کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔
اسرائیل سے امن معاہدے طے کرنے کے باوجود مصر اور اردن فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کے مؤقف سے دستبردار نہیں ہوئے بلکہ ان دونوں ملکوں نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن معاہدے کے لیے متعدد تجاویز پیش کی ہیں اور اوسلو معاہدے کی شکل میں تو بظاہر ایک حقیقی موقع دستیاب ہوا تھا۔
ان معاہدوں کے بعد گزرے برسوں کے دوران میں فلسطینی قیادت نے کبھی کوئی جوابی امن معاہدہ پیش نہیں کیا ہے، تاآنکہ اس سال جنوری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا امن معاہدہ پیش کیا تھا۔اس میں سعودی عرب کے پیش کردہ عرب امن اقدام کے کچھ حصے شامل تھے۔اس کو عرب لیگ نے 2003ء میں منظور کیا تھا۔اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اسرائیل اگر کسی بھی عرب ریاست کے ساتھ امن قائم کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس کے انعام کے طور پر فلسطینیوں کے تمام مطالبات کو تسلیم کرنا ہوگا۔نیز اس مقصد کو اسرائیل پر دباؤ ڈال کر اور اس کا بائیکاٹ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مگریہ تجویز ماضی سے تعلق رکھتی ہے اور آج یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ فلسطینی سب سے زیادہ نقصان میں رہیں گے۔فلسطینیوں سے اظہارِ یک جہتی کی تمام تر گفتگو کے باوجود حقیقی دنیا میں تو اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان گذشتہ برسوں کے دوران میں ہر طرح کے تعلقات استوار اور بحال ہوئے ہیں۔
یو اے ای اور اسرائیل نے اب ان تعلقات کا سرعام اعلان کردیا ہے، حالانکہ اس حقیقت سے فلسطینی قیادت سمیت ہر کوئی برسوں سے آگاہ تھا۔ان اقوام کے درمیان سائنس ، ثقافت اور کھیل کے شعبوں میں تعلقات سست روی سے طویل عرصے سے استوار ہوچکے ہیں۔
معاہدۂ ابراہیم سے ایک طرح سے برف پگھل گئی ہے۔توقع ہے کہ اس سے خطے میں امن کے قیام کے لیے مزید پیش رفتیں ہوں گی اور خطے کو اس طرح کے اقدامات ہی کی ضرورت ہے۔اس ڈیل سے ایک بات تو یہ ظاہر ہوئی ہے اور اس سے پہلے اسرائیل کے مصر اور اردن کے ساتھ معاہدوں کے وقت بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ باہمی مفاد میں کسی ڈیل تک پہنچنے کا بہترین طریقہ براہ راست اور دیانت داری سے مذاکرات ہیں اور اس عمل میں کسی کو فروتر نہ سمجھا جائے۔خاموشی سے بات چیت اور پس پردہ کام یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ڈیل پر منتج ہوا ہے اور یہ اس حکمتِ عملی کے مؤثر ہونے کا بھی ایک ٹھوس ثبوت ہے۔
اور اب سعودی عرب بھی اسی طرح آگے بڑھ کر جی سی سی کے سب سے اہم ملک کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔اس کو اس خاص فلسطینی بیانیے سے نہیں جڑے رہنا چاہیے جس میں 1970ء کے عشرے کے بعد سے کوئی تبدیلی رو نما نہیں ہوئی ہے۔ماسوائے اس کے کہ مصر اور اردن کے بعد اب یو اے ای نے بھی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ طے کر لیا ہے۔ان معاہدوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ براہِ راست اور کھلی بات چیت سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ایسا صرف سعودی عرب ہی کرسکتا ہے۔اس کے سوا کوئی اور ملک بند دروازے نہیں کھول سکتا۔ وہی فلسطینیوں کی اس انداز میں مدد کرسکتا ہے کہ وہ خود اپنی مدد کریں۔اگر فلسطینیوں کی قیادت آگے بڑھنے کی اجازت دے تو یہ ان کے لیے مثبت اقدام ہوسکتا ہے اور ہوگا۔
سعودی عرب ایک علاقائی لیڈر کی حیثیت سے اسرائیل کے ساتھ ابلاغ کا ایک براہ راست اور فعال چینل قائم کرسکتا ہے۔ اس کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ طے کرانے کے لیے ضروری اقدامات کرسکتا ہے۔ مزید برآں عام عرب دنیا اور بالخصوص سعودی عرب کی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔
سعودی عرب کسی ڈیل کی صورت میں تعطل کے خاتمے کے لیے مزید آئیڈیاز اور اقدامات پیش کرسکے گا۔مصر ، اردن ، یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے مشرقِ اوسط میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور وقت میں تغیّر کے بھی غماز ہیں۔اس وقت سعودی عرب کے مستقبل نواز اقدامات یہ ظاہر کریں گے کہ براہِ راست مذاکرات سے کیا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ازکارِ رفتہ اور خود تخریبی طریقوں کو پس پشت ڈال دیا جائے اور کسی عقبی نشست پر بیٹھنے کے بجائے ڈرائیور کی سیٹ سنبھالی جائے۔