پا کستان کا سیاسی بحران ، اے پی سی اور عوام

آفتاب سومرو
پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

پاکستان کی حزب اختلاف نے 20 ستمبر کو اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس کاانعقاد کیا۔ اس میں شریک جماعتوں کے لیڈروں نے وزیراعظم عمران خان کے زیر قیادت تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو سلیکٹڈ اور دھاندلیوں کے ذریعے اقتدار پر قابض قرار دیا اور اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا۔جہاں تک پاکستان میں ایسی کانفرنسوں کا تعلق ہے تو کبھی تمام پارٹیوں (حزب اختلاف اور حزب اقتدار) کو بلایا گیا ہے اور نہ تمام پارٹیوں کی شرکت ہوئی ہے۔اس کے بھی کئی اسباب ہیں؛ ایک تو آج کل کی زبان میں جس کو اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے، اس کی طرف سے کچھ پارٹیوں کو بلانے اور ان سے راہ و رسم بڑھانے سے منع کیا گیا ہے جیسا کمیونسٹ ، سوشلسٹ جماعتیں، حقیقی معنوں میں قوم پرست پارٹیاں وغیرہ۔ دوسرا صرف ان ہی پارٹیوں کو بلایا جاتا ہے جو مخصوص مقصد یعنی اقتدار کا حصول، کسی کو اقتدار سے ہٹانا یا کبھی کبھار کسی خاص صورت حال پر دباؤپیدا کرنے کے حوالے سے مؤثر حثیت رکھتی ہوں۔

مذکورہ کانفرنس میں سننے میں آیا ہے کہ کل گیارہ جماعتوں نے شرکت کی تھی۔وہ پی ٹی آئی حکومت کو ہٹانے اور نئے الیکشن کرانے پر تو متفق ہیں لیکن لائحہ عمل پر نہیں ۔اس کے بھی کئی اسباب ہیں ۔یہ بات تو روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ اقتدار کی امیدوار پارٹیاں کل بھی اور آج بھی اسی اسٹیبلشمنٹ سے پوچھ کر اور اس کی نارا ضگی کو ملحوظ خاطر رکھ کر قدم اٹھاتی ہیں ۔دوسرا ان پارٹیوں میں سےاکثر کو پتا ہے کہ اگر منصفانہ انتخابات ہوئے تو ان کا حشر کیا ہو گا اس لیے انھوں نے اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ صرف پی ٹی آئی ہی پر کیوں دست شفقت رکھ رہی ہے اور ہمیں کیوں دور کر دیا ہے ؟ دیکھ لو، کہیں آپ کی پسند کے خلاف کوئی قدم نہ ا ٹھ جائے اور ہم آپ کو ناراض کرنے کی کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں ۔اس ضمن میں کانفرنس سے تھوڑا ہی پہلے چیدہ چیدہ پارٹیوں کے لیڈروں کی اسٹیبلشمینٹ سے کی گئی ملاقاتیں بھی وائرل ہو چکی ہیں ۔

کانفرنس نے جو ایکشن پلان اورریزولیوشن ظاہر کیا ہے،اس کا بغورجائزہ لیا جائے تومعلوم ہوگا کہ عوام کے مسائل اور ان کے حل کی کوئی ضمانت تو کجا،ایسی کوئی نوید بھی نہیں دی گئی ہے جبکہ مسئلہ تو عوام کا ہے ۔جو لوگ کانفرنس کر رہے تھے وہ تو کئی مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ اقتدار سے دوری ہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ان کا معاشی مسئلہ ہے نہ کوئی استحصال ، کیونکہ استحصال تو محنت کا ہوتا ہے اور یہ سب خود بھی اپنا حق سمجھ کر محنت کش عوام کا کرتے ہیں ۔ کیا ان میں سے کوئی روزمرہ کے استعمال کی چیزیں خود خرید کرتا ہے؟حساب کتاب رکھتا ہے؟ کیا ان کو زندہ رہنے کے لیے درکار روز مرہ کی اشیاء کےبھاؤکا پتا ہے؟ کیا ان کو اور ان کے بچوں کو صحت یا تعلیم کا کوئی مسئلہ ہے ؟ کوئی رکاوٹ ہے ؟ ان کو تو گھر بنا کر بھی دوسرے دیتے ہیں،ان کے گھر چلاتے بھی دوسرے ہیں ۔ ان کو بجلی ، گیس اور پانی وغیرہ کے مسائل کا کچھ پتا ہے اور نہ ان کے ماہانہ بلوں کی کوئی خبر۔

مسائل تو عوام کے ہیں ، محنت کش کے ہیں۔کسان سردی وگرمی میں کام کرتا ہےتو اناج، کپاس ، دالیں ، سبزی پھل فروٹ ہوتا ہے ۔مزدوراپنے آباو اجداد سے لے کر محنت مزدوری کرتا چلا آرہا ہے تو فلک بوس عمارات ، فرنیچر، فیکٹریاں، پلازے، شاپنگ مال، محلات ، سرکاری اور غیر سرکاری عمارات ، روڈ رستے اور نہریں وغیرہ رات دن بن رہی ہیں لیکن ان کو بنانے والے اکثر مزدور اپنے بیوی بچوں سمیت پوری زندگی کسی نہ کسی زیرتعمیر عمارت کے کونے کھدروں ہی میں گزار دیتے ہیں اوریوں وہ ایک طرح کی بغیر معاوضے کے اس عمارت کی چوکیداری بھی کررہے ہوتے ہیں۔

کھیتوں میں گنااُگانے اور کارخانوں میں چینی بنانے والوں کو عید پر بھی چینی مشکل سے میسر ہوتی ہے۔ اسی طرح کپاس اور کپڑے کی مختلف اقسام بنانے میں خون پسینہ ایک کرنے والے بدلے میں بیماریاں وصولتے ہیں اور ان کے بچے سردی گرمی کے کپڑے تو کیا عید پر بھی نئے کپڑوں کو ترستے رہتے ہیں ۔ ڈرائیور،خواہ ریل کے ہوں ،ٹرک کے یا اونٹ گاڑی کے ہوں،ان کی رات دن آمد و رفت لگی رہتی ہے۔ چھوٹا موٹا دکاندار ، ٹھیلا لگانے والا، صفائی پر مامور عملہ، موچی، درزی ، نائی اور نان بائی وغیرہ زندگی کے پہیّے کو چلانے کے لیے خود کو ہلکان کردیتے ہیں۔ملازم سرکاری ہویا غیرسرکاری، مسائل کی دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے مارتے خود ہی مر جاتا ہے ۔ یہ سب عوام ہیں۔ ان کی ساری محنت ہے جو وسائل اور دولت کو وجود دیتی ہے مگر وہ خود اس سے محروم ہیں ۔ایک عام آدمی تو صبح کے وقت پڑوس کی دکان سے چائے کے پتی کی دو ایک پڑیاں ، پاؤ،ڈیڑھ پاؤ دودھ، تھوڑی سی چینی ، کلو دو کلو آٹا اور سبزی وغیرہ لے کر گزارہ کرتا ہے۔ وہ دن بھر کی مشقت کی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے جسمانی اور روحانی دکھوں کی چادر اوڑھ کر رات بسر کرتا ہے۔

دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو نت نئے فیشن اور برانڈڈ چیزوں کی خریداری کے لیے مختلف ممالک کے دوروں پر آتے جاتے رہتے ہیں۔مبادا وہ فیشن میں پیچھے رہ جائیں۔کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ انھوں نے اپنے ملک میں تو دو نمبر کام ہی کیے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق اس کانفرنس میں شریک ایک خاتون نے لباس سے میچ کرنے کے لیے سوا دو لاکھ روپے مالیت کا جوتا پہن رکھا تھا۔

عوام کی دولت پہ ڈاکا ڈالنے اور ان کا استحصال کرنے کے لیے ایک مخصوص اور محدود طبقہ کئی حوالوں سے آپس میں متحد ہو کر کبھی حزبِ اقتدار تو کبھی حزب اختلاف بن کر واردات کرتا رہتا ہے اور مزے کی بات یہ کہ وہ بھی ان عوام کی طاقت کے بل بوتے پر ۔یہ گھناؤنا کھیل تب تک جاری رہے گا جب تک عوام کو یہ بات سمجھ نہیں آجاتی کہ اصل طاقت کے مالک وہی ہیں۔دولت اور باقی تمام وسائل ان کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ان کی لوٹ مار کے لیے انھیں اور ان کی طاقت کومختلف حوالوں سے بانٹا گیا ہے جب کہ وہ استحصالی ڈاکو تومتحد ہیں ۔کیوں کہ ہرآدمی اپنے طبقے کا ساتھی اور وکیل ہوتا ہے ۔اپنے طبقے کی عمارت بنانے اورآباد کرنے کی ہر کوشش کرتا ہے ۔اس استحصالی اقتداری ٹولے نے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اورملک وقوم کو گروی رکھ کر سامراجی قر ضے لے کر ملک اور ملک سے باہر بے حساب اثاثے بنائے ہیں ۔جب تک عوام کو یہ بات سمجھ میں آجائے اور یہ یقین آ جائے کہ اصل طاقت تو وہی ہیں ۔محنت اور وسائل بھی ان کے ہیں اور مسائل بھی انھیں درپیش ہیں جن کو متحد ہو کر صرف اور صرف وہ ہی حل کر سکتے ہیں ۔وہ اپنی طاقت کو اپنے لیے استعمال کر کے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں ، سکھ کا سانس لے سکتے ہیں ، عزت نفس کی بحالی کے علاوہ دنیا کی نعمتوں، آسائشوں اور جدید علوم کو حاصل کر سکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے انھیں اپنی قیادت لانا پڑے گی، اپنے ہی طبقے پراعتماد کرنا ہوگا اور اپنی طاقت کو صرف اور صرف اپنے مفاد میں بروئے کار لانا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار نیشنل بُک فاؤنڈیشن،اسلام آباد کے سابق سیکریٹری ہیں۔

نوٹ: : العربیہ اردو کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔.
مقبول خبریں اہم خبریں