روئے زمین پرتمام زندگی کاخاتمہ کرنے کے لیے کوئی تیسری تباہ کن جنگ عظیم نہیں ہوگی۔ لیکن اس سے بھی بدترہوسکتا ہے: متعدد محاذوں پرطویل جنگیں روایتی ہتھیاروں سے لڑی جاسکتی ہیں اور یہ جوہری طاقتوں کے درمیان ہوسکتی ہیں۔
یہاں تک کہ جنگ عظیم چھڑنے کے امکان کے بغیربھی، یوکرین بحران خود یوکرین سے کہیں آگے پھیلاہوا ہے، جس میں یقین سے زیادہ گہری اور خطرے والی جہت ہے۔ نیٹو اتحاد کو خدشہ ہے کہ یہ صرف ایک آغاز ہے اور وہ نہیں جانتا کہ یوکرین کے بعد صدرولادی میرپوتین کا منصوبہ کیا ہے؟ کیا روسیوں کی نظریں اسی آڑ میں سابق سوویت یونین (یو ایس ایس آر)میں شامل کئی سابق ریاستوں پردوبارہ قبضہ کرنے یا انھیں واپس لینے پر لگی ہوئی ہیں۔ ہم نےاس ہفتے ایسی آوازیں تاریخ، جغرافیہ، زمین، مذہب، قرضوں کے نام پر، قومی سلامتی کے تحفظ، نیٹو کی توسیع پسندی کا جواب دینے اور علاحدگی پسند خطوں یا حزب اختلاف کے گروپ کی مدد کی اپیلوں (مئی ڈے کالوں) کا جواب دینے کے نام پر سنی تھیں؟
بیلاروس اور تاجکستان میں روس کی فوجی سرگرمی اس یقین کو تقویت دیتی ہے کہ پوتین کا ’روس منصوبہ‘ ابھی شروع ہوا ہے۔وہ ایک روسی شاہی زارپسند آدمی ہیں۔ وہ بالشویک روس کو ناپسند کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ سوویت یونین کاروس سے متعلق تاریخی حوالہ دیتے ہیں اور وہ روس کو اس کا’’حق‘‘ دلانا چاہتے ہیں۔ یوکرین کے تمام یا بیشترعلاقوں کے الحاق کے بعد دنیا یا میری نسل کم سے کم سرد جنگ کی واپسی کوعالمی معاملے کے مکمل دائرہ کارمیں آتے دیکھے گی۔
تو، روس کا اگلا قدم کیا ہوسکتا ہے؟ کیا لٹویا، لِتھوانیا اور ایسٹونیا اس کا اگلا شکارہوں گے؟ تکنیکی طور پر سابق سوویت یونین کی 15 سابق ریاستیں ہیں جن پرقوم پرست روسی اپنا حق ملکیت گردانتے ہیں اور اپنے نقصان کے لیے مغرب کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔یہ نظریہ خود پوتین ہی نے پیش کیا تھا۔ ایک گذشتہ تقریر میں روسی صدر نے انتہائی اہمیت کا حامل سیاسی نقشہ پیش کیا تھا تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ اب کیا ہو رہا ہے اور مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے؟ انھوں نے کہا:’’کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے بہت سی غلطیاں کی تھیں جس کی وجہ سے یو ایس ایس آر کا خاتمہ ہوا اور روسی ریاست، جس کو اس وقت یوایس ایس آر کہا جاتا تھا،اس میں شامل سوویت جمہوریاؤں کو حق خودارادیت کی اجازت دے کردراصل ایک ٹائم بم نصب کیا گیا تھا‘‘۔
اس تنازع کی گہری جہت صدر ولادی میرپوتین کے روس کے لیے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ایک ایسے وقت میں جب نیٹو اور مغرب اپنے آپ کو ایک خطرناک آبنائے میں گھرا ہو پاتے ہیں تو ایک جوہری طاقت کے ساتھ براہ راست تصادم میں کودنا خارج از امکان ہے اور یوکرین میں مداخلت ایک سیاسی بیان ہے جو ایک مختلف دنیا کا اشارہ دیتاہے اور اس کی ابھی تک نامعلوم جہتیں ہیں، یہاں تک کہ دنیا بھرمیں تنازعات کے دیگرعلاقوں میں بھی اس طرح نہیں ہوسکتا۔
ایسا لگتا ہے کہ بحران کا ایک سیاسی حل بعیدازقیاس ہے مثلاً یوکرین بحران بڑی طاقتوں کوسلامتی کی ضمانت کی فراہمی کومدنظر رکھتے ہوئے تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال سے گریزپر زوردیتا ہے اور اس کی بنیاد پروضع کردہ بقائے باہمی کے ایک نئے فارمولے کی تلاش پرزور دے رہا ہے۔ درحقیقت یہی وہ جواز ہے جس کا روس نیٹو پر اپنے اعتراضات میں اعادہ کرتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا دوقطبی (بائی پولر) ماڈل سے محروم ہے۔دوقطبی دنیا تمام غلطیوں کے باوجود کم سے کم بڑے محاذوں پر استحکام کی ضمانت دیتی ہے۔
یوکرین پر حملہ حیرت کی بات نہیں تھی بلکہ اس کی توقع کی جارہی تھی جیسا کہ یورپ کے خلاف گیس کا استعمال تھا۔اس کے باوجود بڑی طاقتوں کی سطح پر کوئی فوجی حل نہیں نکالا جائے گا۔اس طرح خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے کہ مغرب ایک ایسے فوجی آپشن پرزور دے گا جو دیگر ریاستوں میں دیگرمحاذوں پراستعمال کرے گا تاکہ ماسکو کو خبردارکیا جا سکے کہ یوکرین میں جو کچھ ہوا،وہ دوبارہ کہیں اور نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک اقتصادی پابندیوں کا تعلق ہے، وہ ایک غیرمؤثر ہتھیار کے طور پرجانی جاتی ہیں۔ بالخصوص جب ان نظاموں کے خلاف انھیں استعمال کیا جاتا ہے جو قیمت ادا کرنے کوتیار ہوتے ہیں، جیسا کہ روس کے معاملے میں ہو سکتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یوکرین کے حملے کے بے تحاشا فوجی اخراجات مغرب اور دنیا کی دیگرریاستیں برداشت کررہی ہیں۔افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی شرح اور توانائی اور گندم جیسی اہم اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں وہ یہ اخراجات برداشت کررہی ہیں اور آیندہ بھی کریں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(یہ کالم پہلے پین عرب روزنامہ الشرق الاوسط میں شائع ہوا تھا۔اب اس کا ترجمہ یہاں شائع کیا جارہا ہے)۔