فی زمانہ بین الاقوامی تعلقات بذاتِ خود ایک مکمل سائنس بن چکے ہیں۔ ایک خطے کا دوسرے خطے کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر خطے میں موجود ممالک کا باہمی تعلق سمجھنے کے لیے بھی کئی باریکیاں اور جزئیات جاننا ضروری ہو گیا ہے۔
حالیہ روس یوکرین تنازع بھی اپنی نوع کا ایک پیچیدہ واقعہ ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سب سے بڑی یورش ہے۔
بین الاقوامی تنازعات اور تعلقات کو سمجھنے کے لیے اس میدان کے سکالرز نے لا تعداد تھیوریز پیش کی ہیں، جن میں جان میئرشمر کی پیش کردہ 'جارحانہ حقیقت پسندی' اس ضمن میں خاصی معروف تھیوری ہے۔ 'دفاعی حقیقت پسندی' کے برعکس یہ تھیوری جارحانہ اندازِ بقاء کے محرکات اور عوامل کی بات کرتی ہے۔ شمر کے مطابق ریاستوں کو اپنی بقاء اور پھیلاؤ کے لیے جارحانہ اقدامات سے کام لینا پڑتا ہے۔
شمر نے اپنے اسی نظریہ کی بنیاد پہ 2014 میں مؤقر جریدے فارن افیئر کے ایک مضمون میں یوکرینی بحران کو روسی جارحیت کا نتیجہ قرار دینے کے باوجود روس کی بجائے نیٹو افواج کی در اندازی کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیا تھا، جو یوکرین کو روسی بالا دستی سے نکال کر مغرب کا حصہ بنانے کی وسیع حکمتِ عملی کا اہم حصہ ہے۔
شمر کے اس تجزیہ پہ حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ شمر کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں روسی پالیسیاں 'ساختی حقیقت پسندی' یا سٹرکچرکل رئیلزم کی توسیع ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق کسی ملک کے اندرونی حالات ' سیاسی اشرافیہ اور رہنما اس ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین کرتے ہیں۔ روس کے معاملے میں یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے۔
قیادت کے نقطہ نظر سے روس یوکرین تنازع سرد جنگ کے بعد کی نا انصافیوں اور مغرب کے پیدا کردہ یک قطبی عالمی نظام کا شاخسانہ ہے۔ طاقت کے عدم توازن اور مغرب میں اس کے ارتکاز کی غیر منصفانہ کوششوں نے ایسے بحران جنم دیے ہیں۔
اس کا آغاز بنیادی طور پر ستمبر 1990میں جرمنی کیساتھ اس حتمی معاہدے سے ہوا تھا جس پہ سوویت سربراہ میخائل گورباچوف نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کی رو سے نیٹو افواج کے سابق مشرقی جرمنی میں داخلے کو ممنوع قرار دیا گیا تھا جس سے یہ تاثر پیداہوا کہ دوسرے مشرقی ممالک میں بھی نیٹو افواج کو تعینات نہیں کیا جائے گا۔
مزید برآں روس کے پہلے صدر بورس یلسن نے مئی 1997میں نیٹو روس فاؤنڈنگ ایکٹ پر دستخط کیے تھے جس کے نتیجے میں اس اتحاد کو وسطی اور مشرقی یورپ اور بالٹک ریاستوں تک وسعت حاصل ہوئی۔ 2008 میں بخارسٹ سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں یوکرین اور جارجیا کی نیٹو رکنیت کے خیر مقدم کے اعلان نے روس کی قیادت کو چونکا دیا تھا۔
اس کے علاوہ اگست 2008 کی روس- جارجیا جنگ، 2014 کا یوکرینی بحران، روس اور کریمیا کا الحاق ' مشرقی یوکرین میں کشیدگی اور اس جیسے کچھ دوسرے واقعات موجودہ روسی قیادت کی نظر میں سلامتی کے لیے خطرات ہیں۔
ولادیمیر پوتین نے سوویت یونین کے انہدام کو بیسویں صدی کی سب سے بڑی سیاسی تباہی قرار دیتے ہوئے 2008 میں یہ کہا تھا کہ اگر انہیں جدید روسی تاریخ کو بدلنے کا ایک موقع ملا تو وہ اس انہدام کو پلٹنے کا انتخاب کریں گے۔
اس سے پہلے 2007 میں اپنی مشہور میونخ سکیورٹی کانفرنس تقریر میں وہ موجودہ دنیا میں 'یک قطبی نظام' کو ناممکن قرار دیتے ہوئے اسے طاقت کا ناقص نظام قرار دے چکے ہیں۔ سوویت ایمپائر کی بحالی اور عالمی نظام کی تعمیر نو پوتین کا مرکزی نقطہ نظر ہے۔
روس یوکرین جنگ نے مشرق وسطیٰ کی نظریاتی تقسیم کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر ترک صدر طیب ایردوآن نے روسی جارحیت کو علاقائی امن کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔ انہوں نے فروری میں دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی پیشکش بھی کی تھی۔
ترکی نیٹو کا رکن ہے لیکن روسی ساختہ فضائی دفاعی نظام ایس - 400 خریدنے پہ تنقید کی زد میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پوتین نے بھی ترکی کو یوکرینی فوج کے ہاتھ ٹی بی ٹو ڈرون فروخت کرنے پہ ہدف تنقید بنایا تھا۔
دوسری جانب ایران روس اور یوکرین کو تحمل کا مشورہ دیتے ہوئے کشیدگی میں تیزی سے اضافے کا الزام امریکہ اور نیٹو پہ عائد کر رہا ہے۔
ادھر یوکرینی سربراہ ولادیمیر زلنسکی نے گذشتہ ہفتے ایک ٹویٹ کیا کہ وہ دوسرے راہنماؤں کیساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں امیرِ قطر تمیم بن حماد کی حمایت حاصل ہے۔
گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراداد پر دستبرداری اختیار کرتے ہوئے فوری طور پر کشیدگی میں کمی کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے متحدہ عرب امارات نے 1986 کے بعد پہلی بار سلامتی کونسل میں اپنی نشست حاصل کی ہے۔
اس ساری صورتحال میں عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگرچہ اس مرحلے پہ اس تبدیلی کے خد وخال واضح نہیں ہیں تاہم بہت جلد یہ واضح ہو جائے گا کہ مغرب کا وضع کردہ عالمی نظام اپنی بقاء کی جنگ جیت پائے گا یا یہ تسلط روس اور اس جیسے دوسری طاقتوں کے ساتھ بانٹنا پڑے گا۔
لیکن یہ واضح ہے کہ روس یوکرین تنازع توانائی کی قیمتوں، خوراک کی فراہمی اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاحت کو ہی نہیں بلکہ خطے کے طاقت کے توازن کو بھی بڑی حد تک متاثر کرنے والا ہے۔
------------------
[ڈاکٹر دانیا گالیوا کے عرب نیوز میں شائع ہونے والے کالم کو ڈاکٹر نائلہ رفیق نے انگریزی سے اردو کے قالب میں ڈھالا]