جب ایرانی شہری جابر حکومت کے خلاف ملک کے گلی کوچوں میں احتجاج کرنے کا سوچ کر نکلتے ہیں تو وہ اچھی طرح سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اس راستے میں چلنے کے 'جرم' میں انہیں لاپتہ کیا جا سکتا ہے، تشدد کا نشانہ بن سکتے ہیں، عصمت دری کا شکار ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ گولی اور پھانسی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
یہ مظاہرین یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے خاندانوں اور اہل خانہ کو سالہا سال تک ناقابل تصور اذیتوں کا ایرانی رجیم کی جانب سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور یہ سارے خطرات مول لے کر نکلتے ہیں۔
یہ مظاہرین ایران کے اس خوفناک ماحول میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ لیکن اسی رجیم کے بعض وفادار امریکہ میں مزے کی زندگیاں گذار رہے ہیں۔ جہاں انہیں ایک ایسی رجیم کے حوالے سے دستیاب غیر جذباتی ذرائع اور تجزیہ کاروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اگرچہ وہ ذاتی طور پر ایران کی اسی ظالم رجیم کی سہولت کاری میں ملوث رہ چکے ہیں۔ اس رجیم اور ریاست کے وفادار جو آج طلبہ وطالبات کو مار رہی ہے۔ ان پر حملے کر رہی ہے اور یہ سہولت کار امریکہ میں مزے کر رہے ہیں۔
انہی میں ایک مہدی انصاری ہے۔ بسیج کا سابقہ عہدیدار ۔۔ 'بسیج' ایران کی نیم فوجی اور نظریاتی فورس۔ جسے آئے روز نوجوانوں پر تشدد کرنے پر فخر ہوتا ہے۔ جو پاسداران کی ماتحتی میں مظاہرین کو قتل کر کے خوش ہوتی ہے۔
شریف یونیورسٹی میں ہوتے ہوئے ایک سربراہ کے طور پر اسی انصاری نے اس 'بسیج' کو منظم کیا تھا۔ تاکہ اصلاح پسندوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔ اس 'بسیج' کا اولین ٹارگیٹ مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو نشان عبرت بنانا تھا۔
اسی مہدی انصاری نے اپنی ذاتی وفاداری کے اظہار کے لیے قاسم سلیمانی کو ایک خط لکھا تھا، جس میں اس نے خود کو جہادی ظاہر کیا تھا۔
مہدی انصاری کی تاریخ یہ ہے کہ وہ پاسداران کے زیر انتظام 'بسیج فورس' کا ایک رکن تھا۔ ایک ایسے ادادرے کا جسے امریکہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
لیکن اسے دو ہزار سترہ میں گریجوایٹ سٹڈیز کے لیے امریکی ویزا لینے سے روکا نہ جا سکا۔ وہ تب سے امریکہ میں رہ رہا ہے۔ امریکی ریزرو بینک میں بھی کام کر چکا ہے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ میں بھی۔
سوشل میڈیا کے اکاونٹس جن مین سے ایک مثال Rich kids کی ہے۔ یہ ان بچوں کو ظاہر کرتا ہے جن کے والدین اشرافیہ کا حصہ ہونے کے ناطے بڑے متقی ہوتے ہیں مگر بچوں کو بنیادی حقوق اور آزادی دینے سے انکاری ہوتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ یہ لوگ کس طرح امریکہ میں اثر پذیری حاصل کرتے ہیں۔ ایک نیٹ ورک کے ذریعے اور امریکہ میں موجود مذہبی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
ایران کے سابق حکام اور حکمران ٹھگ ٹولے کے یہ ساتھی اب نہ صرف امریکہ میں رہ بس رہے ہیں بلکہ امریکی ریزرو بینک میں بھی موجود ہیں۔ اسی طرح کئی معتبر امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھا بھی رہے ہیں۔
ایرانی رجیم کا ایک سابق سفارتکار جس نے جرمنی میں کام کیا تھا اور'مائیکو نوس' میں دہشت گردانہ حملے میں کردار ادا کیا تھا آجکل پرنسٹن یونیورسٹی میں 'گلوبل سکیورٹی' پروگرام کا حصہ ہے۔
ایرانی رجیم کا اقوام متحدہ میں سابق سفیر جو 1988 میں ایک جیل میں قتل وغارت کا میں ملوث رہا تھا اب 'اوبرلین کالج' میں 'پروفیسر آف پیس' ہے۔ علوی فاونڈیشن ایرانی رجیم کی ایک بازو ہے۔ اس کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ یہ اسی طرح کی تقرریوں کو ممکن بنانے کے لیے فنڈنگ کرتی ہے۔
'نیشنل ایرانین امیریکن کونسل '(نیکا) واشنگٹن ڈی سی میں ایک غیر منافع بخش ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ لیکن یہ ایرانی وزارت خارجہ کا 2002 سے حصہ ہے۔ یہ امریکہ میں ایک ایرانی وکیل کے طور پر متحرک رہتی ہے اور ان کے وابستگان ایک مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔
امریکی اخبار نیو یارک ایرانی شہریوں کی تنقید کا نشانہ بنتا ہے، کہ یہ بلا جواز ایرانی رجیم کی حمایت کرتا ہے۔ اسے اس خاندان نے ایک کھلا خط بھی لکھا جس کے افراد کو رجیم نے یوکرینی جہاز پی ایس 752 کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا تھا۔ اخبار مسلسل یہ ظاہر کر رہا ہے کہ ایرانی ایک نارمل رجیم ہے اور ' نیکا ' کی طرف سے اسے جو بھی بھیجا جاتا ہے وہ اسے شائع کرتا ہے۔
ایک مثال ایرانی صدر (سابق) روحانی کے حوالے سے ہے۔ کہ یوکرینی طیارے کو 2019 میں اسی کی کے دور صدارت میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ انیں ہی اس وقعے کے ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اخبار کی رپورٹر فرناز فصیحی بھی ایسی ہی مثال ہے جس نے ایران مخالفین کو بلاک کر رکھا ہے۔ حتی کہ انتہائی نمایاں اور غیر جانبدار جمہوری کارکنوں کو بھی کو بھی بلاک کر دیا ہے۔
ایرانی رجیم اپنے بچاؤ کے لیے نہ صرف گلی کوچوں میں جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے بلکہ پراپیگنڈے کے ذریعے بھی کرتی ہے۔ یہ کام اپنی سرحدوں سے باہر تک کرتی ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی جمہوری معاشروں میں بھی یہ کام کرنے کے لیے متحرک ہے۔
حال ہی میں ایک ممتاز کارکن حسین روناغی نے ایران کے اندر سے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا ہے کہ کس طرح کا ظلم جاری ہے۔ روناغی نے سچ لکھ کر اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال لیا ہے۔ انہوں نے بزبان انگریزی لکھا ہے ۔
کیونکہ ایرانی چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی جانیں کہ ایران میں ان پر کیا بیت رہی ہے؟ کس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ دنیا سے لوگ ان کی مدد کو آئیں کہ ایرانی انقلاب کس طرح ان کے ملک کو پیچھے کی طرف کھینچ کر جبر کی طرف لے گیا ہے۔