وسم سرما کے دہانے پر، بین الاقوامی سیاسی بہار سے فضا معطرہورہی ہے۔رواں ماہ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں منعقدہ گروپ 20 کے سربراہ اجلاس میں ایک امیدافزا فضا قائم ہوئی ہے کیونکہ دنیا کی دوسب سے بڑی معیشتوں امریکا اورچین نے دیکھا ہے کہ ان کے بگڑتے ہوئے تعلقات رُک سے گئے ہیں۔اس موقع پرچینی صدر شی جِن پنگ نے کہا’’دنیا ایک دوراہے پرکھڑی ہے۔یہاں سے کہاں جانا ہے؟‘‘ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس پر یہ گرہ لگائی: ’’مجھے پورایقین ہے کہ نئی سرد جنگ کی ضرورت نہیں رہی ہے‘‘۔
یوکرین میں تنازع کے فوری پُرامن حل پرزوردینا۔۔۔ اور اس کا مطالبہ چین اورامریکا،دونوں نے کیا ہے، سیاسی اور معاشی دنیا پراس کے عظیم اثرات کی طرف ایک اور اہم اشارہ ہے۔
دونوں متحارب صدور نے اپنی ملاقات کا آغازایک دوسرے کو انتخابات میں جیت پرمبارک باد دینے سے کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بائیڈن اور شی جِن پنگ کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع ہونے سے پہلے دونوں صدورکی ٹیموں نے زیادہ تر کام مکمل کرلیا تھا۔
امریکامیں نومبر کے اوائل میں منعقدہ وسط مدتی انتخابات کے نتائج اس راقم کے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں تھے۔ڈیموکریٹس نے سینیٹ کا کنٹرول سنبھال لیا اور ری پبلیکنز نے سخت مقابلے کے بعد ایوان نمایندگان پر قبضہ کرلیا۔امریکی کانگریس کے انتخابات مشکل ہوتے ہیں کیونکہ وہ مقامی طورپر درجنوں درپیش سماجی اورذاتی مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔سینیٹ کا کنٹرول برقرار رکھتے ہوئے صدر بائیڈن کے پاس اپنے منصوبوں کو منظور کرنے اور اپنے مخالفین کے منصوبوں کو ویٹو کرنے کا کافی اختیارہے۔ اس کے باوجود، یہ طاقت مطلق سے بہت دور ہے کیونکہ ایران کے ساتھ ایک معاہدے پر دست خط کرنے یا یوکرین کوہتھیاروں کی ترسیل کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کانگریس کے ذریعے کیا جانا ضروری ہے اورایوان کے کچھ ڈیموکریٹک ارکان صدر کے خلاف اپنے ری پبلکن مخالفین کے ساتھ ووٹ دینے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
اسی طرح مجھے امید ہے کہ بائیڈن اپنی مدت پوری کریں گے اور ایک یادگارتاریخی کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کریں گے جیسا کہ امریکی صدورکی عادت ہے۔ انھوں نے فی الواقع اس طرح کی کامیابی کی بنیاد گذشتہ پیرکے روز رکھ دی تھی جب وہ انڈونیشیا (بالی)میں چینی صدرکے ساتھ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔بحران کو ختم کرنے میں ان کی ممکنہ کامیابی تاکہ دونوں طاقتیں زمین پر پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکیں۔انھیں یہ ملاقات ٹائم میگزین کے سرورق کی زینت بنائے گی اور انھیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرے گی۔ دنیا انھیں ان کے مخالفین کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی مضحکہ خیزویڈیوز کے لیے نہیں بلکہ اس لیے یاد رکھے گی کہ انھوں نے چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ کو روک کر اپنے ملک اور دنیا کے لیے کیا کیا؟ یہ مشکل کام آسان ہوسکتا ہے اگر وہ دوسری مدت کے لیے امیدوار بننے سے گریزکرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس عوامی رائے پران کے اثرات کے بارے میں فکر مند ہوئے بغیراور ڈیموکریٹس کو مقبولیت کھونے کے بغیر فیصلے کرنے کی آزادی کا ایک بڑا مارجن ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس میں اپنے باقی دو سال کے دوران میں وہ ہمارے خطے اوراس کے مسائل سے کیسے نمٹیں گے؟ایران کے ساتھ ایک نئے جوہری معاہدے پرواپس آنے یا اس کے لیے فضا سازگار بنانے کا فیصلہ صرف متعلقہ علاقائی ممالک کو شامل کرکے ہی حاصل کیاجاسکتا ہے تاکہ مستقبل میں اس معاہدے کوترک کرنے سے بچا جاسکے جیسا کہ سابق صدر براک اوباما کے دور میں معاہدے کے معاملے میں ہوا تھا۔اس کے علاوہ، اگر وہ اپنے نام کو فلسطینی اسرائیل امن عمل کے ساتھ جوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں،تو انھیں اہم علاقائی ممالک کی حمایت درکار ہوگی۔
اگرجوبائیڈن روس اور چین کے ساتھ امریکا کے تنازع پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے خطے اوراس کے مسائل سے الگ ہونے کا انتخاب کرتے ہیں تو،سعودی عرب اورخطۂ خلیج کے دیگرممالک اس مسابقت میں شامل ہوجائیں گے اورچین کی حمایت کریں گے،کیونکہ سعودی عرب چین کوسب سے زیادہ خام تیل مہیّاکرنے والا ملک ہے۔اس سے الریاض پرامریکاکا مزید دباؤ بڑھے گاجبکہ وہ دونوں طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم کرنا چاہتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارا خطہ (مشرقِ اوسط) ہمیشہ سے بیرونی تنازعات کے لیے زرخیززمین رہا ہے۔ان کا مقصد آبی گذرگاہوں اور توانائی کے ذرائع کا کنٹرول رہا ہے۔سعودی عرب قریباًایک صدی تک حریفوں کا نشانہ بنارہا:محوری افواج بمقابلہ اتحادی طاقتیں ، نازی جرمنی اورعثمانی ترکی ،اور سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ۔آج آبی گزرگاہیں، تیل اور گیس ایک بارپھرتنازعات کے ذرائع ہیں، اگرچہ کہ امریکا دنیامیں تیل کا سب سے بڑاپیداکنندہ ہے۔دنیا کی بڑی طاقتوں کی جانب سے اپنے بگڑتے ہوئے تعلقات کو روک لگانے اور مزید بگاڑسے بچنے کے عمل سےتوانائی کی مارکیٹ پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے اور کووِڈ 19 کی وَبااور یوکرین میں جنگ کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لیے نئی بساط بچھائی جاسکے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کالم پہلے پان عرب روزنامہ الشرق الاوسط میں شائع ہواتھا اور اس کا ترجمہ اردوقارئین کی نذرکیا جارہا ہے۔