گمنامی میں نہ جائیں، نیک نامی کی طرف آئیں
بظاہر فوجی قیادت تبدیل ہوئی ہے۔ یہ تبدیلی ہر تین سال بعد لازم ہوتی ہے۔ اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے نئی عسکری قیادت کے لیے بہتر سے بہتر افراد کو میرٹ پر آگے آنے اور قوم کی خدمت کا موقع مل سکتا ہے۔ تین سال بعد فوج میں ہر عہدے پر نئی پوسٹنگ کا اصول تو پوری طرح روبعمل رہتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اعلیٰ ترین کمانڈ کی سطح پر یہ روایت وطن عزیز میں پختہ نہ ہو سکی۔ بلکہ روایت شکنی کا چلن عام کر دیا گیا ہے۔
اعلیٰ ترین سطح پر اس روایت شکنی کی ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ آرمی چیف اپنی تین سالہ مدت کے دوران حکومتی سیاسی معاملات میں اس قدر دخیل ہوتے رہے کہ روایت شکنی ہی ایک 'روایت' بنا دی گئی ۔ اسی طرح کچھ آرمی چیف قانون شکنی اور کچھ براہ راست آئین شکنی کے مرتکب ہوتے رہے۔ میرٹ پر بہت سے فیصلوں اور تقرریوں کے عمل کا تکلف سر عام برطرف ہوتا رہا۔ شراکت اقتدار کے لیے نظریہ ضرورت اور جذبہ سیاست غالب آتا رہا۔
ممکن ہے بعض وجوہات اور بعض اوقات ظاہری حالات مختلف رہے ہوں تاہم اصل سبب یکساں بلکہ ایک ہی رہا۔ اس کے لیے کسی لمبے چوڑے تردد کی ضرورت نہیں ہے۔ ۔۔۔ 'جسے تو خود سمجھتا ہے' ۔۔۔۔
ایک بڑی اور اساسی وجہ اور بھی تھی جس کی طرف کم ہی توجہ گئی۔ انگریز دور میں جن خاندانوں کو 'مارشل ریس' کے طور پر گھڑ کر پیش کیا گیا ان کی وفاداری اور جانسپاری انگریز بہادر کے لیے ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ اس 'مارشل ریس' کے نمائندہ افراد کا کردار نوآبادیاتی نظام کے بعد بھی اہم تھا۔ اس نوع کے لوگ وافر تعداد میں مسلح افواج سے دستیاب ہونے کی ایک وجہ تربیت کے سانچوں کا آزادی کے بعد بھی تبدیل نہ کیا جانا تھا۔ اس تربیت سے لیس افراد کی حکومت و سیاست میں ملاوٹ سے نوآبادیاتی نظام کی نئی 'ریسپی' تیار ہوتی رہی۔
اگر ماضی کے سامنے آنے والے تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے توآج بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ 29 نومبر 2022 کو محض فوجی قیادت تبدیل نہیں ہوئی۔ جزوی طور پر ہی سہی ملکی قیادت کی تبدیلی کا بھی یہ ایک موقع ہے۔ ملک کے ابتدائی برسوں سے لے کر آج تک جو اچھے یا برے فیصلے ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ جو واقعات اور اقدامات سامنے آتے رہے یا پس پردہ رکھے گئے۔ ان سب میں سیاسی قائدین کے ساتھ ساتھ فوج اور فوجی قیادت کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی قیادت کا پلڑا ان معنوں میں بھاری رہا کہ کئی دہائیوں تک فوج بلا شرکت غیرے حکمران رہی اور کئی دہائیوں میں اس کی حکمت عملی پس پردہ رہتے ہوئے زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش رہی۔
لہذا عوامی نمائندگی کے انتخاب کا دودھ ہو یا جمہوری حکومت کا دودھ، دونوں میں ملاوٹ کی وارداتیں جاری رہیں۔ خود جمہوریت اور عوام کے اصل طاقت ہونے کے دعوے دار اس میں ملاوٹ کو ہنسی خوشی قبول ہی نہیں کرتے رہے بلکہ عوام کے ساتھ اس بناوٹی اور ملاوٹی جمہوریت کا کھیل کھیلتے رہے۔ اس ناطے ' ہائبرڈ سسٹم ' کی اصطلاح بھلے حالیہ برسوں میں زبان زد عام کی گئی ہو یہ ' پراڈکٹ ' بہت پرانی ہے۔ اسی پرانی پراڈکٹ کے طور پر قائد جمہوریت، قائد عوام ، قائد اعظم ثانی اور بنت جمہوریت ایسے جمہوری ڈرامے کے کرداروں کی تخلیق کی جاتی رہی۔
اس لیے یہ مانے بغیر چارہ نہیں ہے کہ ملک میں جو بھی اچھے برے فیصلے، واقعات اور اقدامات کئے جاتے رہے ان میں فوج اور اس کی قیادت کا کردار اہم تر رہا۔ اس لئے ملک اچھا چلایا گیا یا برا چلایا گیا اس کا جتنا 'کریڈٹ' یا 'ڈس کریڈٹ' بے وردی سیاسی قیادت کو جاتا ہے۔ اسی قدر باوردی سیاسی قائدین بھی اس 'کریڈٹ' اور 'ڈس کریڈٹ' کے دودھ شریک بھائی کے طور پر موجود ہیں۔
ہاں یہ فرق ہو سکتا ہے کہ بے وردی سیاستدانوں کے سر سہرا سجنے کا موقع ہو گا تو باوردی سیاسی قیادتوں کے سینے پر تمغے سجانا مناسب معلوم ہوگا۔ لیکن یہ فیصلہ کہ کس کوکریڈٹ دینا ہے اور کس کو 'ڈس کریڈٹ' کرنا ہے یہ کام تاریخ نے کرنا ہے۔ تاریخ ایک آئینہ ہے جو ذرا ٹھہر کر سچ بولتا ہے۔ مگر بولتا سچ ہی ہے۔ تاریخ کے اس آئینے کا کمال یہ ہے کہ اس میں سچائیوں کا ایک وسیع ' آرکائیو' بھی مل جاتا ہے۔ اس کی دوسری اور فوری نمود عوام کے اس اجماع کی صورت ہوتی ہے۔ جس کے مظاہر گاہے گاہے آج بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ بالآخر تاریخ کے قالب میں ڈھل جانے والی یہ آواز خلق پہلے نقارہ خدا بنتی ہے اور آہستہ آہستہ تاریخ میں ڈھل جاتی ہے۔
اس تناظر میں وطن عزیز میں استحکام کی آشاؤں میں ناکامی سے لے کر سقوط مشرقی پاکستان تک ریاست کے سول اور عسکری قیادت کی صورت چلنے والے دونوں پہیے خوب بروئے کار رہے۔ یہ پہیے اگرچہ آگے بڑھتے رہے مگر ریاست کا سفر پیچھے کی طرف رہا۔ یہ دونوں پہیے اور ان کے معاون پہیے مال و زر میں تولے جاتے رہے جبکہ گالی ریاست پاکستان کو پڑتی رہی۔ ہاں یہ ضرور دیکھا گیا کہ سول اور عسکری قیادت نے کبھی کسی غلطی کا بوجھ اپنے سر نہیں آنے دیا۔
قطع نظر اس کے کہ آج ایک فریق یا اس کی قیادت کیا بیانیہ سامنے لائی ہے اور دوسرے فریق یا اس کی قیادت کا موقف کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے روایت شکنی، قانون شکنی، آئین شکنی اور وطن شکنی کا الزام یا انجام تو دیکھ لیا۔ یہ کون دیکھے گا کہ حب الوطنی کے تمام دعووں اور صلاحیت و مہارت کی تمام تر شہرتوں کے باوجود ہمارا جغرافیہ دشمن نے کیوں بدلا۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں تھی کہ ہم نے اپنے جائزے اور اصلاح کے راستے پر چلنے کے بجائے اپنی تاریخ کو محض کتابوں میں تبدیل کرنے کا راستہ پکڑ لیا۔
یہ بھول گئے کہ تاریخ کو کتب کی حد تک تبدیل کر کے اپنی پسند کے تابع کرنے سے تاریخ بدل سکتی تھی نہ پرانا جغرافیہ بحال ہو سکتا تھا۔ بلکہ 1965 کے بعد کا سفر ایک ہی سمت میں ہوتا رہا۔ پہلے 1971 آیا، اس کے بعد 1984 ، 1999 اور پھر 2019 کے تاریخ لکھی گئی۔ بادی النظر میں جنرل باجوہ نے جس طرح جاتے جاتے ماحول کا ذائقہ بدلنے کے لیے موضوع کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کسی مثبت تبدیلی اور بہتر کاری کا اظہار بالکل نہیں ہے۔
جنرل باجوہ کے دعوے کو پنجابی زبان کے ایک محاورے اور مولانا ابو الکلام آزاد کے ایک قول کی روشنی میں بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلے پنجابی محاورہ 'آپے ای میں رجھی کجی آپے میرے بچے جیون'۔ ان کی یہ کوشش تو صرف خود ہی میاں مٹھو بننے کی ہے۔ میاں مٹھو سے مراد یہاں صرف طوطا ہے مراد لیا جائے کچھ اور یا کسی عزیز کا نام نہ سمجھا جائے۔ وہ طوطا جو اپنی تعریفوں کے پل باندھتا ہے، میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے اور چوری بھی اسی کے نام لگتی ہے۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے حسن وخوبی کی تعریف کا خوبصورت معیار پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں 'حسن وہ ہوتا ہے جس کا سوتن بھی اعتراف کرے' ایسی کوئی خوبی اور حسن 'پیش کر اے غافل اگر دفتر میں ہے۔' اس لیے کسی کا نام لیے بغیر بس اتنا عرض ہے کہ کبھی کبھی اس مصرع پر بھی غور کر لینا چاہیے۔ ؎ کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا۔
جنرل باجوہ کو جاتے جاتے نئی بحث چھیڑنے کی ضرورت تھی نہ اعلانات کرنے کی۔ ریٹائرڈ ہونے والوں یا سبکدوش ہونے والے حکام اور قائدین ہی نہیں سماج کے سب چھوٹے یونٹ ایک گھرانے میں بھی عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے۔ سمجھدار جانے والے اپنے بعد والوں کو نصیحت کریں تو وہ تو شاید کسی حد تک قبول ہو سکتی ہے۔ لیکن اپنی 'اننگز' پورے کھیل جانے والوں کے فیصلوں، اعلانات اور اقدامات کی قبولیت اور پائیداری ہمیشہ بعد والوں کی صوابدید کے مرہونِ منت ہوتی ہے۔ (جنرل باجوہ نے تو ایک نہیں پوری دو اننگز کھیلیں ہیں۔) اس لیے جانے والے سمجھدار لوگ آنے والے وقتوں کے امور آنے والوں کے سپرد کر کے جائیں تواسے ان کی دانش مندی سمجھا جاتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ فوج کے غیر آئینی کردار کو ختم کرنے کا فیصلہ یا اعلان برا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ فوج کو سیاست میں مداخلت کرنی چاہیے۔ یہ تو بنیادی اصول ہے کہ جس کا جو کام ہو اسے وہی کام کرنا چاہیے۔ جس طرح یہ نہیں ہوسکتا کہ آرمی چیف کے کام میں کوئی کور کمانڈر مداخلت کرنا شروع کر دے اور کور کمانڈر کسی سٹیشن کمانڈر یا بٹالین کمانڈر کی سازشوں کی زد میں رہے۔ ماتحت افسران اپنے کمانڈر سے اپنی مرضی زبردستی منوانے لگیں۔ ایسے ماتحت انجام کار لازماً کورٹ مارشل کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اب یہ قانون وعدالت کا اختیار ہے کہ انہیں تنبیہ کر کے چھوڑے یا سزا دے۔
بہر حال سیاست میں حصہ نہ لینے کا جنرل باجوہ کے اس آخری وقت پر اعلان محض بوقت پیری پرہیز گار بننے کی کوشش ہی کہا جا سکتے ہیں۔ ان اعلان اس لیے بھی معنی اور وزن نہیں رکھتا کہ یہ فیصلہ ' نارمل' حالات کے نتیجے میں سامنے نہیں آیا ہے۔ فیصلہ کس قدر کمزور اور عمل سے دور ہے، اس بارے میں حتمی رائے تو کچھ دیرگزرنے کے بعد اس وقت ہی بن سکے گی جب عملی اقدامات مثبت یا منفی گواہی دیں گے۔ عمل کی گواہی سے ہی ثابت ہو سکے گا کہ یہ فیصلہ محض علامتی اور ظاہری نوعیت کا تھا یا پوری سوچ بچار کا نتیجہ تھا۔
البتہ ابھی سے یہ ضرور دیکھا جارہا کہ اگرادارے نے فیصلہ فروری 2021 میں ہی کر لیا گیا تھا تو اس کے بعد بہت سارے واقعات اور اقدامات ایسے کیوں سامنے آتے رہے جو فروری 2021 کی ادارے کی اس مبینہ سوچی سمجھی سوچ کے ساتھ لگا نہیں کھاتے تھے۔
جنرل باجوہ سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے کہ وہ صرف قومی اور صوبائی سطح کی سیاست میں اپنے انداز میں حصہ دار نہیں رہے بلکہ انہوں نے خود کو بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے ایک اہم 'پولیٹیکل پلیئر' کے طور پر میدان میں حد سے زیادہ متحرک رکھا۔ غیر ملکی سفیروں اور سفارتکاروں سے کسی مملکت کا سربراہ ہی اتنی ملاقاتیں کرتا ہوگا جتنی ملاقاتیں جنرل باجوہ کی آن ریکارڈ ہیں۔
ادارے کے مبینہ فیصلے کے پیچھے اجتماعی دانش کا دخل اس لیے بھی نہیں لگتا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف عدالت میں جس آئین شکنی کے خلاف موقف رکھتے رہے ہیں جنرل باجوہ جاتے جاتے یہ اعتراف کر کے گئے ہیں کہ وہ اور ان کا ادارہ آئین شکنی کا مرتکب ہوتا رہا ہے۔ بلکہ ستر سال سے اپنے حلف اور آئین کی متواتر خلاف ورزی کی جاتی رہی۔
اس اعتراف کے بعد تو آئین کی پیش کار پارلیمنٹ اور آئین کی محافظ عدلیہ کا کردار شروع ہونے کا موقع آ جاتا ہے۔ اس لیے جنرل باجوہ یا ان کے کسی سابق ماتحت اور رفیق کار کا میڈیا اور قوم کے سامنے یہ اعتراف بڑا خطرناک ہو سکتا ہے۔
لہذا اگر کسی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ آئین کے خلاف کام کرتا رہا ہے، یا کام کرتے رہے ہیں تو انہیں اس کے ساتھ ہی خود کو آئین کے تابع ثابت کرنے کے لیے آئین اور قانون کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کوئی اظہار کسی گوشے سے بھی سامنے نہیں آیا۔ راقم کو یاد ہے جنرل ضیاء الحق شہید اپنی گفتگوؤں اور تقریروں میں فوج کے بیرکوں کی طرف واپس جانے کی بات کرتے رہتے تھے۔ اب جنرل باجوہ نے بھی یہی بات کی ہے کہ فوج اپنے کام سے کام رکھے گی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق شہید سے پہلے اور ان کے بعد جو کچھ ہوتا رہا ہے،
جام مے تو بہ شکن، توبہ مری جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ۔۔۔۔ ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
خود کو آئین شکنی اور حلف شکنی کا مرتکب ماننے کے بعد قانون کے حوالے نہ کرنے والا کوئی بھی فرد ہو یا عدالتی کٹہرے سے گذارے بغیر چھوڑ دینا تو بجائے خود قانون و آئین کے خلاف ہو گا۔ صاف مطلب ہو گا کہ آئین و قانون با اختیار اور مقتدر لوگوں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی کے سوا کچھ نہیں۔
چلیں ماضی کی بات چھوڑیں۔ اتنا تو ہوتا کہ فروری 2021 کے بعد کی آئین سے ماورا حرکتوں اور کارروائیوں کے حوالے سے ہی خود کو یا اپنے آس پاس موجود اکا دکا افراد کو علامتی طور پر عدالت کے سامنے پیش کرنے کی بات کرلی جاتی۔ یہ بھی نہیں تو کم از کم فروری 2021 کے فیصلے کے بعد سیاست میں ملوث ہونے والے باوردی لوگوں کا کورٹ مارشل کرنے کے لیے ہی کوئی جھوٹا سچا مقدمہ سامنے لایا جاتا۔
جنرل باجوہ نے چھ سال میں سیاست کی یا نہیں کی۔ اس بارے میں ہونٹ سی بھی لیے جائیں اور قلم روک بھی لیے جائیں تو فروری 2021 کے بعد کا تو ضرور حساب دینا چاہیے۔ اگر یہ بھی بہت زیادہ محسوس کریں تو رواں سال فروری یعنی فروری 2022 سے 26 نومبر2022 تک تو کم از کم پورے اعتماد سے خود کو قانون کی میزان میں رکھنے کی پیش کش کی جا سکتی تھی۔ ۔ اگر ایسا نہیں کیا جا رہا تو جنرل باجوہ کے کسی فیصلے اور اعلان کو بعد والے کوئی وقعت نہیں دیں گے۔ گیٹ نمبر 4 کھلا رہے گا، راتوں کی ملاقاتیں بھی اسی طرح جاری رہیں گی۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ اب غلطی کی گنجائش بالکل باقی نہیں رہی۔
ایک اور آپشن جنرل باجوہ کے لیے یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ کم از کم جزوی طور پر ہی سہی خود کو قانون کے ترازو پر تلنے کے لیے پیش کر دیں۔ صرف اپنے آرمی چیف بننے سے پہلے کے اثاثہ جات اور ریٹائرمنٹ کے دنوں کے اثاثہ جات معہ اہل و عیال عدالت کے سامنے یا عوام کی عدالت کے سامنے پیش کر دیں۔ اگر یہ چھوٹا سا احتساب بھی اپنی سرخروئی کی خاطر کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے تو اس کے کسی ایسے دعوے اور وعدے پر بھروسہ کرنا ہر کسی کے لیے مشکل ہوگا۔ خصوصاً جب چھ سالہ تاریخ کی گواہی بھی حق میں نہ ہو۔ ان حالات میں گمنامی میں جانے کے بجائے نیک نامی طرف آنے کا راستہ لینا چاہیے تھا۔ گمنامی میں جانا تو ہر قانون شکن کو مفید لگتا ہے۔ اسی لیے کبھی ایک گوشہ نشینی کر لینے کی بات کرت کرتا ہے اور کبھی کوئی دوسرا گمنامی اختیار کرنے کا اعلان کر دیتا ہے۔